بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ڈکار لینا برا عمل ہے؟


سوال

درج ذيل  حدیث کی تشریح مطلوب ہے، کیا ڈکار لینا برا عمل ہے؟

"حدّثنا محمد بن حُميد الرازي، قال: حدّثنا عبد العزيز بنُ عبد الله القُرشي، قال: حدّثنا يحيى البكّاء عن ابن عمر، قال: تجشّأ رجلٌ عند النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، فقال: كفَّ عنا جُشاءك فإنّ أكثرَهم شبعاً في الدنيا أَطولُهم جُوعاً يوم القيامة .

قال أبو عييسى: هَذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ مِن هذا الوجه. وفي الباب عَن أبي جُحيفة".

(جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم--،باب: حديث اكثرهم شبعا في الدنيا، حديث:2478)

جواب

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ  کے سامنے ڈکار لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی ڈکارکو ہم سے روکو (یعنی اتنا زیادہ نہ کھایا کروکہ لمبی لمبی ڈکاریں آنے لگیں)اس لیے کہ  دنیا میں جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ پیٹ  بھرنے والا ہوگاقیامت  کے دن وہ  لوگوں میں  سب سے بڑا بھوکا  ہوگا، (یعنی  جو شخص دنیا میں بہت زیادہ کھانے والا ہوگا قیامت کے دن اسے بہت زیادہ بھوک لگے گی)۔

امام ترمذی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:یہ حدیث اس سند کے اعتبار سے حسن غریب ہے۔البتہ  اس باب میں  حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے( جو اس کے لیے شاہد  بن سکتی ہے)۔  

ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:شیخ جزری رحمہ اللہ فرماتےہیں: اس حدیث کی سند میں عبد العزیز بن عبد اللہ  ،یحیی البکاء سے روایت کر رہے ہیں، اور یہ دونوں ضعیف ہیں، البتہ حضرت ابوحجیفہ وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے لیے بطورِشاہد موجود ہے(جو  ا س کے معنی کی تائید کرتی ہے،اس لیے اسے بیان کرسکتے ہیں)۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ   مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں لکھتے ہیں:

"مذکورہ حدیث میں جن صحابی کے ڈکارلینے کاذکر ہے، ان کانام ابو جحیفہ وہب  بن عبد اللہ  السوائی ہے، یہ ان کم عمر صحابہ کرام میں شمار ہوتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ  میں بالغ نہیں ہوئےتھے،وہ خود فرماتے ہیں: ایک دن میں نے گوشت کی ثرید کھائی  اور ڈکاریں لیتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی ڈکاروں کو رکو، اس لیے کہ  دنیا میں جو شخص لوگوں میں سب سے  زیادہ پیٹ  بھرنے والا ہوگا، قیامت کے دن وہ  لوگوں میں  سب سے زیادہ بھوکا  ہوگا (یعنی  جو شخص دنیا میں بہت زیادہ کھانے والا ہوگا قیامت کے دن اسے بہت زیادہ بھوک لگے گی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ڈکارلینے سے ممانعت کا مقصد حدیث کے آخری حصہ سے واضح ہورہا ہے، یعنی  اتنا زیادہ کھانے سے  منع کرنا مقصود ہے جس سے انسان کا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھرجائے  اور لمبی لمبی ڈکاریں آنے لگیں ، اس لیے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا ہی  لمبی ڈکاریں آنا کا سبب ہے۔معجم ِ طبرانی اور بیہقی  وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ  حضرت  ابوحجیفہ وہب بن عبد اللہ  السوائی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت کے بعد زندگی بھر  کبھی بھی  پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا،اگر  رات میں کھالیتے تو دن میں نہ کھاتے اور جب دن میں کھالیتے تورات میں نہ کھاتے۔"

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدّثنا محمد بن حُميد الرازي، قال: حدّثنا عبد العزيز بنُ عبد الله القُرشي، قال: حدّثنا يحيى البكّاء عن ابن عمر، قال: تجشّأ رجلٌ عند النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، فقال: كفَّ عنا جُشاءك فإنّ أكثرَهم شبعاً في الدنيا أَطولُهم جُوعاً يوم القيامة .

قال أبو عييسى: هَذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ مِن هذا الوجه. وفي الباب عَن أبي جُحيفة".

(سنن الترمذي، أبواب صفة القيامة .. إلخ، باب (بدون الترجمة)، 4/230، رقم:2478، ط: دار الغرب الإسلامي-بيروت)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"(وعن ابن عمر أن رسول الله -صلى الله تعالى عليه وسلم- سمع رجلا يتجشأ) : بتشديد الشين المعجمة بعدها همزة أي: يخرج الجشاء من صدره، وهو صوت مع ريح يخرج منه عند الشبع، وقيل: عند امتلاء المعدة، وقيل: الرجل وهب بن عبد الله، وهو معدود في صغار الصحابة، وكان في زمانه عليه الصلاة والسلام لم يبلغ الحلم، روى أنه لم يملأ بطنه بعد ذلك. قال التوربشتي: الرجل هو وهب أبو جحيفة السوائي، روي عنه أنه قال: «أكلت ثريدة بر بلحم، وأتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأنا أتجشأ (فقال: أقصر) : بفتح الهمزة وكسر الصاد أي: امتنع (من جشائك) بضم الجيم ممدودا، وكان أصل الطيبي رحمه الله أقصر عنا. فقال: معناه اكفف عنا، والنهي عن الجشاء هو النهي عن الشبع ؛ لأنه السبب الجالب له اه. وقيل: التجشؤ التكلف. (فإن أطول الناس) أي: أكثرهم في الزمان (جوعا يوم القيامة أطولهم شبعا) : بكسر ففتح ( في الدنيا . رواه في شرح السنة) : .... ورواه ابن أبي الدنيا، والطبراني في الكبير والأوسط، والبيهقي وزاد قال الراوي: فما أكل أبو جحيفة ملء بطنه حتى فارق الدنيا، كان إذا تعشى لا يتغدى، وإذا تغدى لا يتعشى. وفي رواية لابن أبي الدنيا، قال أبو جحيفة: فما ملأت بطني منذ ثلاثين سنة اه. (وروى الترمذي نحوه) : قال ميرك: ولفظه عن ابن عمر قال: «تجشأ رجل عند رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم فقال له: " كف عنا جشاءك؛ فإن أكثرهم شبعا في الدنيا أطولهم جوعا يوم القيامة» ". رواه ابن ماجه والبيهقي، كلهم من رواية يحيى البكاء، عن ابن عمر، وقال الترمذي: حديث حسن، كذا في الترغيب للمنذري، وقال الشيخ الجزري: في سند هذا الحديث عبد العزيز بن عبد الله، عن يحيى البكاء وهما ضعيفان، لكن للحديث شاهد من حديث أبي جحيفة وهب بن عبد الله السوائي".

(مرقاة المفاتيح، كتاب الرقاق، (8/3252)، رقم:5193، ط:دار الفكر،بيروت-لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں