بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کرنٹ دے کر شکار کی جانے والی مچھلی حلال ہے؟


سوال

کیامچھلی کو کرنٹ کے ذریعے سے مارنے سے وہ  "سمک طافی"  کے حکم میں تو داخل نہیں؛ کیوں کہ وہ بھی مر کر اوپر آتی  ہے؟

جواب

کرنٹ کے ذریعہ شکار  کی گئی مچھلی حلال ہے،  اس کا کھانا جائز ہے، اس کو "طافی "  نہیں کہا جائے گا؛ کیوں کہ طافی  اس مچھلی  کو کہا جاتا ہے جو کسی آفت اور سبب کے بغیر خود مر جائے اور کرنٹ کے ذریعہ شکار کی جانے والی مچھلی   کو آفت کے ذریعہ  مارا جاتا ہے، بالفاظِ دیگر  کرنٹ کے ذریعے مچھلی کے شکار میں انسان کا عمل دخل شامل ہوتاہے،  لہٰذا یہ "سمکِ طافی" نہیں ہوگی، گو مرنے کے بعد وہ پانی کے اوپر آجائے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 36):

"الطافي اسم لما مات في الماء من غير آفة وسبب حادث."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 306):

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة و لو متولدًا في ماء نجس ولو طافية مجروحة وهبانية (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة، وهبانية.

(قوله: وما مات بحر الماء أو برده) وهو قول عامة المشايخ، وهو أظهر وأرفق تجنيس، وبه يفتى، شرنبلالية عن منية المفتي (قوله: وبربطه فيه) أي الماء؛ لأنه مات بآفة، أتقاني، وكذا إذا مات في شبكة لايقدر على التخلص منها، كفاية (قوله: أو إلقاء شيء) وكان يعلم أنها تموت منه. قال في المنح: أو أكلت شيئًا ألقاه في الماء لتأكله فماتت منه وذلك معلوم ط (قوله: فموته بآفة) أي جميع ما ذكر وهو الأصل في الحل كما مر". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں