بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

كيا مدرسہ کےلیے چندہ کرنا جائز ہے؟


سوال

ہم نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے،جن میں تقریباً 150 طلبہ اور طالبات زیر تعلیم  ہیں اور سارے غیر رہائشی ہیں اور تین اساتذہ ہیں ،مدرسہ کی طرف سے طلبہ اور طالبات پر ماہانہ فیس مقرر ہے، لیکن بعض بچے غریب ہوتے ہیں ،جو فیس نہیں اداکرسکتے تو ان کےلیے مدرسہ   نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ ہم رمضان المبارک  میں   ان کےلیے   چندہ کرتے ہیں ،پھر ہم ان غریب بچوں کے والدین کو سال میں ایک دفعہ بلالیتے ہیں ،پھر جو رقم چندہ کے ذریعے جمع ہوئے ہیں یا کسی نے زکوۃ دی ہوں تو اس قم کا ہم ان بچوں کے والدین کو مالک بنادیتے ہیں ،پھر والدین وہ رقم مدرسہ   میں دوبار ہ جمع کرتے ہیں ،اپنے بچو ں کے فیس کے طور پر پورے سال کا اور مدرسہ کی اخراجات بھی  بہت زیادہ ہے جو پورا نہیں ہوتے  ہیں توہم ان بچوں اور مدرسہ کی اخراجات کےلیے چندہ یا زکوۃ کے رقم وصول کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اورٹیبل وغیرہ لگاسکتے ہیں  یانہیں ؟ یا شرعی طریقے سے ہمیں مستفید فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مستحق طلبہ اور طالبات کےلیے چندہ کرنا اور پھر اس زکوۃ /خیرات کی رقم ان  مستحق طلبہ /طالبات کے سرپرستوں کو دینا اور پھر ان سے فیس کی مد میں  وصول  کرنا درست ہے ، بشر ط یہ  کہ جن  بچوں کے سرپرستوں  کو زکوۃ کی رقم  دی جائےوہ مستحق زکوۃ  ہوں ،زکوۃ /خیرات وصول کر نے کے لیے مدرسہ والے ٹیبل  بھی لگا سکتے  ہیں، اگرچہ یہ مناسب نہیں ہے۔

الدرمع الرد میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكاً) لا إباحةً، كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).

وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ، كما في المحيط قهستاني".

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر،ص: 2،ص:344،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144312100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں