بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سگریٹ پینا حرام ہے؟


سوال

آپ کی ویب سائیٹ پر  سوال بھیجا تھا، جو جاری ہوچکا ہے، (فتوی نمبر 143908200084 ) اس سوال میں میں نے سگریٹ کے حرام ہونے کے بارے میں دیو بند کے فتوی کا ریفرینس دیا تھا،  جس کا فتوی دیو بند کی ویب سائیٹ میں انگلش میں ہےِ  اوردیو بند کی ویب سائیٹ کا فتوی نمبر 4803 ہے اور ویب سائیٹ کالنک یہ ہے، https://darulifta-deoband.com/home/en/Halal--Haram/4803۔

"Smoking cigarette for enjoyment without a habit is makrooh (undesirable), if one insists on it and smokes regularly which may be injurious to his health, then smoking cigarette is unlawful (haram). Thus buying and selling cigarette are undesirable. Smoking cigarette being undesirable and haram is because of fearof  disease, so wherever the more fear is the harder prohibition will be and wherever the lesser fear is the lesser prohibition will be. (Mahmudia, 8/401)"

نوٹ: گزشتہ فتوی ذیل میں درج ہے:

"سوال:کیا سیگریٹ پینا حرام ہے؟ دارالعلوم انڈیا نے حرام بولا ھے (Fatwa: 1208/1054=B-1429) سگریٹ پینا مزے کے  لیے بنا عادت کے مکروہ ہے، اگر کوئی اس پر مجبور ہو اور مستقل پیے  جو صحت کے  لیے مضر ہے تو پھر سگریٹ حرام ہے، تو اس کا خریدنا  بیچنابھی مکروہ ہے، بیماری کے خوف سے، جہاں زیادہ خوف ہو گا وہاں ممانعت بھی زیادہ ہوگی اور جہاں کم خوف ہوگا وہاں ممانعت کم ہوگی۔۔۔  (محمودیہ 8/401) برائے مہربانی جواب عطا کریں؛ کیوں کہ  کسی کو روکنے کے  لیے اس کی ضرورت  ہے!

جواب:تلاش کے باوجود دار العلوم دیوبند یا فتاوی محمودیہ کا کوئی ایسا فتوی نہیں مل سکا جس میں سگریٹ کو حرام قرار دیا گیا ہو، نیز سائل نے بطور حوالہ جو لنک ارسال کیا ہے وہ کھل نہیں رہا، جس کی بنا پر اس کے مندرجات تک رسائی ممکن نہ ہوسکی، البتہ ذیل میں دار العلوم دیوبند انڈیا سے جاری شدہ فتوی نقل کیا جاتا ہے، جس سے سائل کی ذکر کردہ بات کی نفی ہورہی ہے، اور یہی ہمارا بھی فتوی ہے، کہ سیگریٹ نوشی نہ تو شراب کی طرح حرام  ہے اور نہ ہی کھانے پینے کی طرح مباح ہے، تاہم منہ میں بدبو پیدا کرنے کا باعث ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے،  اور بدبو دار منہ کے ساتھ مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔  ( دیکھیے: فتاوی رشیدیہ صفحہ 552)۔

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 1020-910/H=8/1439

اگر کسی سگریٹ میں اس قسم کا تمباکو ہو کہ جس سے اعضاء رئیسہ دل و دماغ وغیرہ کو سخت نقصان پہنچتا ہو تو اس کا پینا ناجائز اور سخت مکروہ ہے اگر ایسا نہ ہو تو بھی اس کا ترک بہرحال احوط و بہتر ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے (سگریٹ پینا) ”بلا ضرورت (شوقیہ) پینا مکروہ ہے بغیر منہ صاف  کیے ہوئے مسجد میں جانا جس کی بدبو سے دوسروں کو اذیت پہونچے منع ہے۔“ اھ  (صفحہ: ۳۸۹/ ۱۸ (دارالمعارف دیوبند)

حرام یا کفر ہونے کا حکم جو آپ نے سمجھا ہے وہ درست نہیں اگر پختہ عزم کرلیں کہ آئندہ سگریٹ نہ پیوں گا تو امید ہے کہ اس بری لت سے نجات مل جائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ۔"

جواب

کسی بھی چیز کے بارے میں حرمت کا حکم لگانا  ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، لہٰذا  فقہائےکرام نے لکھا ہے کہ کسی چیز پر حرمت کا حکم اسی صورت لگایا جائے گا جب اس کی حرمت قطعی الدلالت    اور قطعی الثبوت دلیل سے ثابت ہو،اور اگر ایسی کوئی دلیل نہ ہو  تو اباحتِ اصلی کے قاعدہ پر عمل کیا جائے گا (یعنی"الأصل في الأشياء الإباحة")اور وہ چیز  فی نفسہ حلال ہوگی، ہاں کسی خارجی یا عارضی سبب کی بنا پر اس میں کراہت آسکتی ہے، اسی بناء پر اکابر علما نے سیگریٹ پینے  کو فی نفسہ مباح یعنی جائز لکھا ہے، لیکن چوں کہ اس کو مستقل پینے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے اس لیے بدبو کی وجہ سے بلا ضرورت اس کے استعمال کو  مکروہ قرار دیا ہے،  لیکن اس کو 'حرام' نہیں کہا ہے، چناں چہ مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ  حقہ سے متعلق ایک تفصیلی سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"حقہ کے باب میں بہت فتاوی اور رسائل طبع ہوئے  اور بحث مباحثہ ہوا، مگر بندہ کے نزدیک راجح اور حق یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے اور اس وقت میں علاجِ بلغم ہے، اور اگر ازالہ بدبو کا ہوجائے تو مباح بلا کراہت ہے، باقی تکلفات ہیں"

(تذکرۃ الرشید، ج:1، ص:168-169)

مفتی اعظم ہند کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر  فرماتے ہیں کہ:

"بیڑی سکریٹ پینا فی حد ذاتہ مباح ہے، بدبو منہ میں رہ جائے تو بدبو کی وجہ سے کراہت پیدا ہوتی ہے"

(کفایت المفتی، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج:9، ص:127، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(الجواب) جس حقہ میں نا پاک یا نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں وہ بالاتفاق حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن جس حقہ ، بیڑی،  سگریٹ وغیرہ میں  تمباکو نوشی کا رواج ہے اس کی حرمت متفق علیہ نہیں ہے،  اکثر علماء فقہاء کی رائے جواز کی ہے۔ شامی " میں ہے۔" فيفهم حكم النبات وهو اباحة على المختار والتوقف وفيه اشارة الى عدم تسلیم اسکاره و تفتيره و اضراره ( ج ۵ ص ۴۰۷ كتاب الاشربة)

یعنی اصل اشیاء میں اباحت یا توقف ہے اس قانون کے مطابق تمباکو کا حکم سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اباحت ہے یا توقف اور اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ نشہ آور اور فتور پیدا کرنے والا اور  ضرررساں نہیں ہے۔ (شامی )

مگر تمباکونوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے، لہذاصحیح  ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہت سے خالی نہیں۔ تمبا کو بنفسہ مباح ہے۔ اس میں کراہت بد بو کی بنا پر عارضی ہے،  کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی  بہر حال قابل ترک ہے۔ اس کی عادت نہ ہونی چاہئے۔ اس کی کثرت اسراف اور موجب گناہ ہے۔ جولوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بد بودار رہتا ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم  کو بہت زیادہ نفرت تھی۔۔۔

خلاصہ یہ کہ حقہ بیڑی ، سگریٹ وغیرہ چیزیں حرام نہیں مگر بلاضرورت و بلا مجبوری ان کی عادت ڈالنا مکرو ه  ہے، ہاں ضرور ۃًجائز ہے لیکن صفائی کا خیال بھی ضروری ہے۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، باب المسکرات، ج:10، ص:211-213، ط:دار الاشاعت)

"الدر المختار مع رد المحتار "میں ہے:

"ثم قال شيخنا النجم: والتتن الذي حدث وكان حدوثه بدمشق في سنة خمسة عشر بعد الألف يدعي شاربه أنه لا يسكر وإن سلم له فإنه مفتر وهو حرام لحديث أحمد عن أم سلمة قالت «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن كل مسكر ومفتر» قال: وليس من الكبائر تناوله المرة والمرتين، ومع نهي ولي الأمر عنه حرم قطعا، على أن استعماله ربما أضر بالبدن، نعم الإصرار عليه كبيرة كسائر الصغائر اهـ بحروفه. وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول سمته اهـ.

قلت:فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه، وقد كرهه شيخنا العمادي في هديته إلحاقا له بالثوم والبصل بالأولى فتدبر.

(قوله والتتن إلخ) أقول: قد اضطربت آراء العلماء فيه، فبعضهم قال بكراهته، وبعضهم قال بحرمته، وبعضهم بإباحته، وأفردوه بالتأليف. وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ويمنع من بيع ‌الدخان وشربه وشاربه في الصوم لا شك يفطر. وفي شرح العلامة الشيخ إسماعيل النابلسي والد سيدنا عبد الغني على شرح الدرر بعد نقله أن للزوج منع الزوجة من أكل الثوم والبصل وكل ما ينتن الفم. قال: ومقتضاه المنع من شربها التتن لأنه ينتن الفم خصوصا إذا كان الزوج لا يشربه أعاذنا الله تعالى منه. وقد أفتى بالمنع من شربه شيخ مشايخنا المسيري وغيره اهـ. وللعلامة الشيخ علي الأجهوري المالكي رسالة في حله نقل فيها أنه أفتى بحله من يعتمد عليه من أئمة المذاهب الأربعة.

قلت: وألف في حله أيضا سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها (الصلح بين الإخوان في إباحة شرب ‌الدخان) وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان، وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره، بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لا يلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل، وقد توقف النبي - صلى الله عليه وسلم - مع أنه هو المشرع في تحريم الخمر أم الخبائث حتى نزل عليه النص القطعي، فالذي ينبغي للإنسان إذا سئل عنه سواء كان ممن يتعاطاه أو لا كهذا العبد الضعيف وجميع من في بيته أن يقولهو مباح، لكن رائحته تستكرهها الطباع؛ فهو مكروه طبعا لا شرعا إلى آخر ما أطال به - رحمه الله تعالى -، وهذا الذي يعطيه كلام الشارح هنا حيث أعقب كلام شيخنا النجم بكلام الأشباه وبكلام شيخه العمادي وإن كان في الدر المنتقى جزم بالحرمة، لكن لا لذاته بل لورود النهي السلطاني عن استعماله ويأتي الكلام فيه...

(قوله وهو حرام) مخالف لما نقل عن الشافعية فإنهم أوجبو على الزوج كفايتها منه اهـ أبو السعود فذكروا أن ما ذهب إليه ابن حجر ضعيف،والمذهب كراهة التنزيه إلا لعارض. وذكروا أنه إنما يجب للزوجة على الزوج إذا كان لها اعتياد ولا يضرها تركه فيكون من قبيل التفكه، أما إذا كانت تتضرر بتركه فيكون من قبيل التداوي وهو لا يلزمه ط.

(قوله ومع نهي ولي الأمر عنه إلخ) ... أقول: مقتضاه أن أمراء زماننا لا يفيد أمرهم الوجوب.

(قوله ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله الأصل الإباحة أو التوقف)المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه...

قال أبو السعود: فتكون الكراهة تنزيهية، والمكروه تنزيها يجامع الإباحة اهـ. وقال ط: ويؤخذ منه كراهة التحريم في المسجد للنهي الوارد في الثوم والبصل وهو ملحق بهما، والظاهر كراهة تعاطيه حال القراءة لما فيه من الإخلال بتعظيم كتاب الله تعالى اهـ."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:459-461، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں