بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیوی کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے؟


سوال

بیوی کی طرف سے شوہر کو طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم  اورا حادیث مبارکہ سے یہ بات وضاحت کے ساتھ  ثابت  ہے کہ  شریعت اسلامی میں طلاق کا اختیار اللہ تعالی نے صرف مرد کو دیا ہے، نکاح اگر چہ  مرد اور عورت دونوں کی رضامندی سے منعقد ہوتا ہے لیکن طلاق کے ذریعہ نکاح کے ختم کرنے کا اختیار صرف مرد کو ہے، عورت کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے، لہٰذا اگر عورت شوہر کو طلاق دے دے، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، إن سيدي ‌زوجني ‌أمته، وهو يريد أن يفرق بيني وبينها، قال: فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر، فقال: «يا أيها الناس، ما بال أحدكم يزوج عبده أمته، ثم يريد أن يفرق بينهما، إنما الطلاق لمن أخذ بالساق»."

(كتاب الطلاق، باب طلاق العبد، ج:1، ص:672، ط:دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کردیا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں جدائی کرا دے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر چڑھے اور فرمایا: لوگو! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کردیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے۔"

و في حاشية السندي تحت هذا الحديث:

"قوله (إنما الطلاق لمن أخذ بالساق) أي الطلاق حق الزوج الذي له أن يأخذ بساق المرأة لا حق المولى."

(ج:1، ص:641، ط؛:دار الفكر)

"الهداية مع العناية"میں ہے:

"(طلاق الأمة ثنتان حرا كان زوجها أو عبدا، وطلاق الحرة ثلاث حرا كان زوجها أو عبدا) وقال الشافعي: عدد الطلاق معتبر بحال الرجال لقوله - عليه الصلاة والسلام - «الطلاق بالرجال والعدة بالنساء»  ... وتأويل ما روي أن الإيقاع بالرجال.

وقوله: (وتأويل ما روي) يعني قوله: «الطلاق بالرجال» أن ‌الإيقاع ‌بالرجال. فإن قيل: هذا معلوم فلا يحتاج إلى ذكره خاصة. أجيب بل كان إلى ذكره حاجة؛ لأن المرأة في الجاهلية إذا كرهت الزوج غيرت البيت وكان ذلك طلاقا منها فرفع ذلك بقوله: «الطلاق بالرجال»."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:492-494، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406102250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں