بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا بیوی کے زیورات سے کاروبار کرنا جائز ہے؟


سوال

کیا بیوی کے زیورات  سے کاروبار کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کی بھی ذاتی چیز اس کی اجازت  اور رضامندی کے  بغیر  لے کر استعمال کرنا ناجائز ہے، البتہ اگر  مالک اپنی رضامندی  سے اس چیز کے استعمال کرنے کی اجازت د ے تو اس چیز کا استعمال شرعاً جائز ہے، لہذاصورتِ مسئولہ میں اگربیوی  شوہر  کو اپنے مملوکہ  زیورات سے کاروبار کرنے کی جازت یا حکم دے تو  شوہر کا بیوی کے زیورات سے کاروبار کرنا جائز ہے، تاہم بیوی کی اجازت  یا حکم کے بغیر شوہر کا بیوی کے زیورات سے کاروبار کرنا ناجائز ہے،لیکن اگر بیوی نے  شوہر کو   اپنے زیورات سے کاروبار کرنے کی اجازت یا حکم دیا تو شوہر پر بیوی کے زیورات کاروبار کے لیے  لیتے وقت، یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ زیوارات شوہر بطور ِقرضہ لے رہا ہے یا بطورِ شرکت یا مضاربت؟ تاکہ یہ زیوارت  یا اس کی قیمت  لوٹاتے  وقت شوہر اور  بیوی کے درمیان  اختلافات  پیدا نہ ہوں۔

 مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،889/2،ط:المكتب السلامي)

ترجمہ : ”اور حضرت  ابو حرہ رقاشی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" خبردار!کسی پر ظلم نہ کرنا، جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال اس کی  مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں۔“

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،1974/5، ط: دارالفکر)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص27، ط: دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الملك من شأنه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(کتاب البیوع 504/4 ط:سعید)

 فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،61/4، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں