میرے سسر نے اپنی بہو کو شادی کے موقع پر کچھ زیورات بطور ملکیت دیا تھا اور بہو بھی کچھ زیورات اپنے ساتھ لائی تھی، کچھ سال قبل گھر میں ڈکیتی ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے میرے سسر نے بہو اور بیٹے سے وہ زیورات بطورِامانت اور حفاظت کی غرض سےاپنے بینک کے لاکر میں رکھ دیا،کچھ سال تک تو میرے سسر ان زیورات کی زکات ادا کرتے رہے، لیکن ان کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اس کی زکات ادا کرسکیں تو میرے سسر نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنے زیورات کی زکات اب تم خود ادا کرو؛کیوں کی یہ تمہاری ملکیت ہیں،بیٹا کہتا ہے جب زیورات آپ کے پاس ہیں تو زکات بھی آپ اداکریں گے، اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ زیورات کی زکات کس پر لازم ہے؟
نوٹ:مذکورہ زیور اور سونا بہو اور بیٹے دونوں کی مشترکہ ملکیت ہے،جو کہ تقریباً 25 تولہ ہے،مذکورہ بیٹا اپنے والد یعنی میرے سسر کے ساتھ ظہر تک کام کرتا ہے،جس سے میرے سسر گھر کے اخراجات چلاتے ہیں اور ظہر کے بعد مذکورہ بیٹا اپنا ذاتی کاروبار کرتا ہےجس سے اس کی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ سونا جس کی ملکیت ہو تو حسب شرائط زکات بھی اسی کے ذمہ ہوتی ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں چوں کہ 25 تولہ سونابہو اور بیٹے دونوں کی مشترکہ ملکیت ہےتو زکات کی ادائیگی بھی انہی کے ذمہ ہے والد پران زیورات کی زکات نہیں ہے،البتہ اس سے پہلے والد نےجو زکات ادا کی ہےاگر بہو اور بیٹے کی اجازت سے یا ان کے کہنے پر کی تھی تو وہ زکات ادا ہوگئی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة"
(كتاب الزكاة،ج2،ص:267،ط:سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابًا ملكًا تامًّا وحال عليه الحول."
(كتاب الزكاة، ج:3، ص:460، ط:دارالفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ. إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية."
(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:227،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100392
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن