بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹا باپ سے اپنا حصہ مانگ سکتا ہے؟


سوال

میرے والدین صاحبِ حیثیت اور مالدار ہیں، میں ان کا اکلوتا شادی شدہ بیٹا ہوں اور غریب ہوں، میرے تین بچے ہیں، گھر خرچ کے لیے مجھے والد صاحب کی طرف سے محدود رقم ملتی ہے جو بمشکل بچوں کی اسکول فیس وغیرہ میں خرچ ہوجاتی ہے، میں نے والد صاحب سے کئی بار کاروبار شروع کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ کیا، لیکن وہ انکار ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب میرے پوتوں کا ہے۔

کیا میں اپنے والد صاحب سے ان کی زندگی میں مذکورہ وجوہات کی بناء پر اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتا ہوں جب کہ ان کی وفات کے بعد میری بہن اور بہنوئی کی طرف سے لڑائی جھگڑے کا قوی امکان ہے؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کی زندگی میں ان کے بچوں کا ان کی جائیداد وغیرہ میں کوئی مالکانہ حق و حصہ نہیں ہوتا،  تاہم اگر والدین اس بات پر راضی ہوجائیں کہ زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کریں تو ایسا کرسکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے ہبہ اور عطیہ ہوگا، لیکن اولاد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ والدین سے زبردستی تقسیم کا مطالبہ کرے۔

لہٰذا سائل کو اپنے والدین سے ان کی زندگی میں اپنے حق و حصہ کے مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں، ہاں اگر وہ مناسب سمجھیں اور اپنی خوشی سے  اولاد کے درمیان تقسیم کریں تو کرسکتے ہیں ، اگر والدین زندگی میں تقسیم نہ کریں، تو سائل از خود اپنی محنت میں اضافہ کرے، اپنی آمدنی کے ذرائع بڑھانے کی کوشش کرے، کسی سے قرضہ لے یا اپنی استعداد کے مطابق محدود پیمانے پر کام شروع کرے، اپنی اور بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنا شرعاً سائل کی ذمہ داری ہے، اس کے والد کی نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره، ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به."

(ج:6، ص:263، کتاب الدعوی، فصل فی بیان حکم الملک و الحق ۔۔۔، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں