بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بعض ایام میں جماع کرنا منع ہے؟


سوال

شادی کے بعد چند بزرگ حضرات نے بتایا مجھے کہ منگل کی شب اور چاند کی آخری چار راتیں همبستری سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اس سے پیدا ہونے والی اولاد میں معذوری کا اندیشہ ہوتا ہے پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ واقعی شرعی لحاظ سے بھی اس طرح کے اجتناب کا کوئی حکم ہے اور کیا بزرگ حضرات کی یہ بات واقعی درست ہے ؟

جواب

شرعًا میاں بیوی کی ہم بستری کے لیے کوئی خاص دن متعین نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی خاص دن میں اس کی  ممانعت ہے، ہاں دیگر  وجوہات  مثلًا روزہ، احرام  کی حالت اور عورت کے ایام اور نفاس کی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔

سوال میں موجود مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ اس بات کا شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے،یہ  بے اصل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك....... والجماع....... والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث}."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

" الجماع فيما دون الفرج من جملة الرفث فكان منهيا عنه بسبب الإحرام. وبالإقدام عليه يصير مرتكبا محظور إحرامه. اهـ. وقد يقال: إن كان الإلزام للنهي فليس كل نهي يوجب كالرفث، وإن كان للرفث فكذلك إذ أصله الكلام في الجماع بحضرتهن وليس ذلك موجبا شيئا."

(كتاب الحج،باب الجنايات،فصل نظر إلي فرج إمرأته بشهوة فأمني، ج:3، ص:42،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحل له كل شيء إلا النساء)...(قوله: إلا النساء) أي جماعهن ودواعيه ...".

(کتاب الحج ، ج:2، ص:517، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں