ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کی شادی کو ایک سال ہوا تھا، اور اس کی کوئی اولادبھی نہیں ہےاور مرحوم کی بیوہ کو جوبھی رقم واجبات کی صورت میں کمپنی کی طرف سے ادا کی گئی ہے جو کہ لائف انشورنش کی رقم ہو یا دیگر واجبات، اُس پر مرحوم کے ماں باپ کا حق ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں ہر وہ مال جس کا میت زندگی میں جائز طریقے سے مالک و مستحق بنا ہوا ہو، اس میں میراث جاری ہوگی ،اس میں بیوہ کے ساتھ میت کے ماں ،باپ اور دیگر ورثا کا بھی حصہ ہوگا،البتہ اگر بیوہ کو کمپنی کی طرف سے پنشن کی مد میں (یا کسی اور عنوان سے بیوہ کے نام پر ہی) رقم دی جاتی ہو تو اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، کیوں کہ وہ ادارے کی طرف سے بیوہ کوعطیہ ہے، اس لیے اس میں میت کے ماں باپ کا حق نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ مرحوم نے جو رقم انشورنس کمپنی کے پاس جمع کی تھی اتنی ہی رقم میت کے ورثا کے لیے لینا جائز ہے، لیکن اس کے علاوہ کمپنی کی طرف سے اضافی رقم جو دی گئی ہے وہ سود ہے، اس کا استعمال کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے زکات کے مستحق فقراء ومساکین پرثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں۔
امداد الفتاوی میں ہے:
’’چوں کہ میراث مملوکہ اَموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔‘‘
( امداد الفتاوی: کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ(4 /343)، ط: دارالعلوم)
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف ما تركه ميراثًا؛ فإنه عين المال الحرام، وإن ملكه بالقبض والخلط عند الإمام؛ فإنه لا يحل له التصرف فيه قبل أداء ضمانه، وكذا لوارثه، ثم الظاهر: أن حرمته على الورثة في الديانة لا الحكم".
(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الحظر والإباحة(6/ 386)،ط. سعيد، كراتشي)
معارف السنن میں ہے:
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: والظاهر: أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة".
(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور(1/ 34)، ط. المکتبة الأشرفیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208201501
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن