بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیوہ عورت عدتِ وفات اپنے والد کے گھر گزار سکتی ہے ؟


سوال

میری بیٹی کے شوہر کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیاہے،میری بیٹی کی عمر ابھی 21سال ہے،اس کے دو بچے ہیں،اس کی شادی اپنی سگی پھوپھی  کےگھر ہوئی ہے،وہ اپنی عدت پھوپھی اور اپنے سسرال والوں کے کہنے اور محلے کے کسی عالم کے کہنے پر اپنے سسرال میں ہی گزار رہی ہے،اس کے شوہر کے انتقال کو ایک مہینہ ہوچکاہے،وہاں جوائنٹ فیملی ہے،سب ساتھ رہتے ہیں،جس میں سے ایک جیٹھ شادی شدہ اور تین دیور کنوارے ہیں،سب سے چھوٹے دیور کی عمر بارہ سال ہے،جس سے کوئی پردہ نہیں کرایا جارہا ہےاور گھر بھی 100گز پر مشتمل ہے،جس کی وجہ سےگھر میں سب کوپریشانی ہورہی ہے ،وہاں اس کو اپنے اخراجات اور ضروریات کے لیے تکلیف ہورہی ہے،میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپنے گھر لے آؤں ۔

کیا اس کو میں اپنے گھر عدت گزارنے کے لیے لاسکتا ہوں؟

جواب

بیوہ عورت پر عدت اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں ہی گزارنالازم ہے، کسی شدید عذر کے بغیراس گھر سے باہر نکلنایارہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ اگر مرحوم شوہر کے گھر میں  رہ کر عدت مکمل کرنے میں کوئی شرعی عذر نہیں یعنی کسی قسم کے جان ،مال یا عزت وآبرہ کا خطرہ نہیں تو اسی گھر میں رہ کر عدت مکمل کرنا لازم ہے،باقی بارہ سال کا لڑکا جو بالغ نہیں اس سے احتیاطاً پردہ کرنا چاہئے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة ‌طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(‌‌کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد: 3/ 536، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.وإذاانتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه منزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:325،326،ط:المکتبۃ الوحیدیۃ پشاور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں