بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عزل کسی صحابی سے ثابت ہے؟


سوال

 کیا عزل  کسی صحابی سے ثابت ہے؟

جواب

     عزل کرنا بعض صحابہ کرام  جیسے حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت انس بن مالک ،حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت  سعد بن ابی وقاص رضوان اللہ علہیم اجمعین سے ثابت ہے۔     اسی طرح بعض صحابہ کرام جیسے  حضرت ابوبكر   ،حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت علی ،حضرت ابن عمر ،اور حضرت ابو امامۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عزل کی کراہت  بھی ثابت ہے ۔

اس لیے  فقہاءِ  کرام  دونوں اقوال کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لہذا بلا عذر عزل کرنا ناپسندیدہ ہے،  البتہ اگر عذر ہو تو  (آزاد) بیوی کی اجازت سے عزل کرنا بلاکراہت جائز ہوگا، اور بعض حالات میں بیوی کی اجازت کے بغیر بھی اس کی گنجائش ہے۔

عمدۃ القاری(194/20):

"فَمن قَالَ بِهِ من الصَّحَابَة: سعد بن أبي وَقاص وَأَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ وَزيد بن ثَابت وَعبد الله بن عَبَّاس، ذكره عَنْهُم مَالك فِي (الْمُوَطَّأ) وَرَوَاهُ ابْن أبي شيبَة أَيْضا عَن أبي بن كَعْب وَرَافِع بن خديج وَأنس بن مَالك، وَرَوَاهُ أَيْضا عَن غير وَاحِد من الصَّحَابَة، لَكِن فِي الْعَزْل عَن الْأمة ومه: عمر بن الْخطاب وخباب بن الْأَرَت. وروى كَرَاهَته عَن أبي بكر وَعمر وَعُثْمَان وَعلي وَابْن عمر وَأبي أُمَامَة رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُم، وَكَذَا روى عَن سَالم وَالْأسود من التَّابِعين، وَرُوِيَ عَن غير وَاحِد من الصَّحَابَة التَّفْرِقَة بَين الْحرَّة وَالْأمة، فتستأمر الْحرَّة وَلَا تستأمر الْأمة وهم: عبد الله بن مَسْعُود وَعبد الله بن عَبَّاس وَعبد الله بن عمر، وَمن التَّابِعين سعيد بن جُبَير وَمُحَمّد بن سِيرِين وَإِبْرَاهِيم التَّيْمِيّ وَعَمْرو بن مرّة وَجَابِر بن زيد وَالْحسن وَعَطَاء وطاووس، وَإِلَيْهِ ذهب أَحْمد بن حَنْبَل، وَحَكَاهُ صَاحب (التَّقْرِيب) عَن الشَّافِعِي، وَكَذَا غزاه إِلَيْهِ ابْن عبد الْبر فِي (التَّمْهِيد) وَهُوَ قَول أَكثر أهل الْعلم."

مؤطا امام مالک فی روایۃ  ابی مصعب (668/1)

" أخبرنا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ رَجُلٍ , يُقَالُ لَهُ: ذَفِيفٌ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْعَزْلِ , فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ، فَقَالَ: أَخْبِرِيهِمْ , فَكَأَنَّهَا اسْتَحْيَتْ، فَقَالَ: هُوَ ذَلِكَ , أَمَّا أَنَا فَأَفْعَلُهُ."

مصنف عبدالرزاق (144/7):

"عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَذَكَرُوا لَهُ الْعَزْلَ فَقَالَ: «قَدْ كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»."

سنن سعید بن منصور(2/129):

" أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ وَابْنُ عُمَرَ يَكْرَهَانِ الْعَزْلَ، وَكَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَابْنُ مَسْعُودٍ يَعْزِلَانِ."

مصنف ابن أبي شیبة (510/3):

" عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، فِي الْعَزْلِ اخْتَلَفَ فِيهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: فَكَانَ زَيْدٌ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ «يَعْزِلَانِ."

شرح السنة للبغوي (103/9):

"قَالَ الإِمَامُ: اخْتلف أهل الْعلم فِي كَرَاهِيَة الْعَزْل، فرخَّص فِيهِ غيرُ وَاحِد من الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ، قَالَ جَابِر: كُنَّا نعزلُ وَالْقُرْآن ينزلُ، وَرخّص فِيهِ زيد بْن ثَابِت، وَرُوِيَ عَنْ أَبِي أَيُّوب، وَسَعْدبْن أَبِي وَقاص، وَابْن عَبَّاس أَنهم كَانُوا يعزلون.

وَكَرِهَهُ جمَاعَة من الصَّحَابَة وَغَيرهم، لما رُوي أَن النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئل عَنِ الْعَزْل، فَقَالَ: «ذَلِكَ الوَأْدُ الخَفِيُّ» .

وَرُوِيَ عَنِ ابْن عُمَر، أَنَّهُ كَانَ لَا يعْزل، قَالَ مَالِك: لَا يُعزل عَنِ الْحرَّة إِلا بِإِذْنِهَا، وَلَا عَنْ زَوجته الْأمة إِلا بِإِذن أَهلهَا، ويعزل عَنْ أمته بِغَيْر إِذْنهَا، وَرُوِيَ، عَنِ ابْن عَبَّاس: «تُسْتَأْمَرُ الحُرَّةُ فِي العَزْلِ، وَلا تَسْتَأَمَرُ الجَارِيَة» .وَبِهِ قَالَ أَحْمَد."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں