بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت بیعت ہوسکتی ہے؟


سوال

کیا عورت کسی بزرگ یا بڑے عالم سے بیعت کرسکتی ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کتاب و سنت کا عالم ہو،متقی ہو،آخرت سے رغبت اور دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا ہو،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مکمل اہتمام کرتا ہواور صلحاء ومشائخ کا صحبت یافتہ ہو تو ایسی  شرائط کے  حامل شخص سے  عورتوں کا  پردے میں رہتے ہوئے  اصلاح نفس کے ارادے  سے بیعت ہونا جائز ہے۔نیز  آج کل جو بیعت کی جاتی ہے وہ چوں کہ بیعتِ توبہ ہے ،اس لیے جب کسی شخص میں مذکورہ  شرائط پائی جائیں اور پردے کا بھی مکمل اہتمام ہو تو خواتین کا ایسے شخص  سے بیعت ہونا اور اس کو اپنا مرشد و شیخ بنانا جائز ہے۔

لیکن عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان کے ہاتھوں کو مس نہیں کیا جاۓ گا،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان کے ہاتھوں کو نہیں چھوتے تھے۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذا جاءَكَ الْمُؤْمِناتُ يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ." (الممتحنة:الآية:12)

بخاری شریف میں ہے:

" حدثنا إسحاق حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه قال: أخبرني عروة أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات ‌يبايعنك- إلى قوله- غفور رحيم قال عروة: قالت عائشة فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد بايعتك» كلاما، ولا والله ما مست يده يد امرأة في المبايعة قط، وما يبايعهن إلا بقوله: «قد بايعتك على ذلك»."

(كتاب المغازي،باب: إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات،726/2،ط:قدیمی)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ فرماتے   ہیں:

"فشرط من يأخذ البيعة أمور:أحدها علم الكتاب والسنة ولاأريد المرتبة القصوي... ،والشرط الثاني: العدالة والتقوي فيجب أن يكون مجتنبا عن الكبائر  غير مصر علي الصغائر، والشرط الثالث: أن يكون زاهدا  في الدنيا راغبا في الآخرة ومواظبا علي الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة المذكورة في صحاح الحديث مواظبا علي تعلق القلب بالله سبحانه، والشرط الرابع: أن يكون آمرا بالمعروف وناهيا عن المنكر...، والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهراً طويلا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة..."

(  شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل  ،دوسری فصل:بیعت کی سنیت،غایت،منفعت اور شرائط کا بیان،ص:20،24،25،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں