بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت آخرت میں بوڑھی ہوگی؟


سوال

کیا حضرت زلیخا آخرت میں بوڑھی ہوں گی؛  کیوں کہ ان کو دنیا میں دو بار جوانی ملی تھی؟

جواب

واضح رہے کہ دنیا میں جوان اور بوڑھا ہونے  کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں ہے،آخرت میں سب لوگ ایک ہی عمر کے ہوں گے۔ ترمذی شریف میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتی اس حالت میں جنت میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم اور چہرے پر بال نہیں ہوں گے، سرمہ لگا ہوا ہوگا، تیس یا تینتیس سال کی عمر کے ہوں گے۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہےکہ: ایک بوڑھی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے فلاں شخص کی والدہ! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو گی۔“ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ بڑھیا روتی ہوئی واپس چلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خبر کر دو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی (بلکہ نوجوان دوشیزہ بن کر جائے گی)۔

تفسیر معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانیؒ(إِنَّآ أَنشَأۡنَٰهُنَّ إِنشَآءً)کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ دنیا کی عورتیں جو جنت میں جائی گی ان کی خاص تخلیق سے مطلب یہ ہے کہ جو دنیا میں بدشکل،سیاہ رنگ یا بوڑھی تھی اب اس کو حسین شکل وصورت میں جوان رعنا کردیاجائےگا،جیسا کہ ترمذی اور بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(إِنَّآ أَنشَأۡ نَٰهُنَّ إِنشَآءً)کی تفسیرمیں فرمایا کہ جو عورتیں دنیا میں بوڑھی چُندھی،سفید بال،بدشکل تھیں انہیں یہ نئی تخلیق حسین نوجوان بنادےگی۔(معارف القرآن،ج:8،ص:276)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"إِنَّآ أَنشَأْنٰهُنَّ إِنْشَآءً ٣٥ فَجَعَلْنٰهُنَّ أَبْكَارًا ٣٦ عُرُبًا أَتْرَابًا

فَقَوْلُهُ: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ} أَيْ: أَعَدْنَاهُنَّ فِي النَّشْأَةِ الْآخِرَةِ بَعْدَمَا كُنَّ عَجَائِزَ (3) رُمْصًا، صِرْنَ أَبْكَارًا عُرُبًا، أَيْ: بَعْدَ الثِّيُوبَةِ عُدْن أَبْكَارًا عُرُبًا، أَيْ: مُتَحَبِّبَاتٍ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ بِالْحَلَاوَةِ وَالظَّرَافَةِ وَالْمَلَاحَةِ.

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً} قَالَ: "نِسَاءٌ عَجَائِزُ كُنّ فِي الدُّنْيَا عُمْشًا رُمْصًا". رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ جَرِيرٍ، وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ.

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم يَقُولُ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً}يَعْنِي: "الثيب والأبكار اللاتي كُنَّ في الدنيا" 

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:۔۔۔ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ: {عُرُبًا أَتْرَابًا} . قَالَ: "هُنَّ اللَّوَاتِي قُبِضْنَ فِي دَارِ الدُّنْيَا عَجَائِزَ رُمْصًا شُمطًا، خَلَقَهُنَّ اللَّهُ بَعْدَ الْكِبَرِ، فَجَعَلَهُنَّ عَذَارَى عُرُبًا مُتَعَشِّقَاتٍ مُحَبَّبَاتٍ، أَتْرَابًا عَلَى مِيلَادٍ وَاحِدٍ."

(ج:7، ص:532/531، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا أبو هريرة محمد بن فراس البصري قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عمران أبو العوام، عن قتادة، عن شهر بن حوشب، عن عبد الرحمن بن غنم، عن معاذ بن جبل، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يدخل أهل الجنة الجنة جردا مردا مكحلين أبناء ثلاثين أو ثلاث وثلاثين سنة»: «هذا حديث حسن غريب وبعض أصحاب قتادة رووا هذا عن قتادة، مرسلا ولم يسندوه»"

(ابواب صفۃ الجنۃ، ‌‌باب ما جاء في سن أهل الجنۃ، ج:4، ص:682، رقم:2545، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

شمائل ترمذی میں ہے:

"عن الحسن قال: أتت عجوز إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله أدع الله أن يدخلني الجنة. فقال يا أم فلان! ان الجنة لا تدخلها عجوز. قال: فولت تبكي فقال: أخبروها أنها لا تدخلها وهي عجوز إن الله تعالى يقول: إنا أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا."

(‌‌باب ما جاء في صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص:144، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں