بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عقیقہ میں مرغیاں ذبح کرنا جائز ہے؟


سوال

 کیا عقیقہ میں مرغیاں ذبح کرنا جائز ہے؟ اگر ہاں توکتنی؟

جواب

عقیقہ کے لیے جانوروں میں ان شرائط کاہوناضرروی ہے جوشرائط قربانی کے جانوروں کے لیے ہیں، یعنی جن جانوروں کی قربانی درست ہے ان سے عقیقہ کرنابھی درست ہے اور یہ بات ہر مسلمان کو بخوبی معلوم ہے کہ مرغی کی قربانی نہیں ہوتی؛ اس لیے مرغی کے ذریعہ عقیقہ بھی ادا نہیں ہو گا۔

المعجم الصغير (1 / 150):

" عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم.

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں