بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ورثاء کےلیے وصیت میں تبدیلی کرنا جائز ہے؟


سوال

 ایک شخص نے موت سے پہلے ایک وصیت نامے میں جہاں کچھ اور باتوں کا ذکر کیا وہاں یہ بھی لکھوایا کہ میری جائیداد کا 1/3 خاندان کے مستحقین کو دیا جائے، ہم نے ورثاء کو مشورہ دیا کہ اگر ساری رقم خاندان کے یتیم اور بیواؤں کو اکٹھی دے دی گئ تو پھر یہ کھا ، پی کر ختم کردیں گے اور پھر کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہوں گے،اس سے بہتر یہ ہے کہ ایک ٹرسٹ بنایا جائے اور اس کے تحت اس رقم سے کوئی  جائیداد خرید کر کرایہ پر دی جائے اور وہ کرایہ ان یتیموں بیواؤں پر خرچ کیا جائے تاکہ خاندان کے موجودہ اور بعد میں آنے والے مستحقین مستفید ہوتے رہیں گے ، لیکن ورثاء کی رائے یہ ہے کہ بجائے خاندان کے لوگوں پر خرچ کرنے کے ہم پانی کے کنویں کھدوادیتے ہیں تاکہ عوام الناس مستفید ہوں اور یہ صدقہ جاریہ بن جائے، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اگر کسی  چیزکی وصیت کرے تو وہ ان کو دینا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا یااپنی طرف سے تصرف کرنا جائز نہیں ؛لہذا صورت مسئولہ میں مرحوم موصی نے  جو  اپنے خاندان کے مستحقین کےلیے ايك تہائي  مال کی وصیت کی ہے  وہ ان ہی کو دینا ضروری ہے،ورثاء کا  اس  میں اپنی طرف سے  کسی قسم کی تبدیلی کرنا جائز نہیں ؛لہذا ورثاء کا یہ کہنا کہ" بجائے خاندان کے مستحقین پر خرچ کرنے کےکنویں کھدوادیتے ہیں"شرعاً درست نہیں،بلکہ مذکورہ جائیداد کا  ایک تہائی (اگر رقم ہو تو رقم اور اگر زمین ، مکان وغیرہ ہو تو  وہی جائیداد )ان مستحقین کے حوالہ کرنا ضروری ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أوصى بثلثه ‌لفقراء ‌بني ‌فلان وهم لا يحصون دخل مواليهم وموالي مواليهم وموالي الموالاة وحلفاؤهم وعديدهم يقسمه بين من يقدر عليه منهم بالسوية،والحليف من والى قوما ويقول لهم أنا أسلم ويحلف على ذلك ويحلفون له على الموالاة، والعديد من يصير منهم بغير حلف."

(کتاب الوصایا،الباب السادس الوصية للأقارب وأهل البيت والجيران،ج:6،ص:120،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان حكم الوصية فالوصية في الأصل نوعان: وصية بالمال، ووصية بفعل متعلق بالمال لا يتحقق بدون المال، أما الوصية بالمال فحكمها ثبوت الملك في المال الموصى به للموصى له."

(كتاب الوصايا،فصل في ‌حكم ‌الوصية،ج:7،ص:385،ط:دار الكتب العلمية)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144311102168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں