بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا اپنا نکاح خود آن لائن پڑھ سکتے ہیں؟


سوال

کیا اپنا نکاح خود آن لائن پڑہ سکتے ہیں،  نیز اس کی شرائط کیا ہوں گی ؟

جواب

واضح رہے کہ  نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے، اگرچہ خود اپنا نکاح پڑھائے ، اگر ایجاب وقبول کی مجلس ایک نہ ہوگی تو نکاح منعقد نہ ہوگا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص خود اپنا نکاح آن لائن پڑھانا چاہےتو اس کے جواز کی صورت یہ  بن سکتی ہے کہ   عورت اپنی جانب سے کسی ایسی شخص کو وکیل بنادے جو مذکورہ شخص (خود آن لائن اپنا نکاح پڑھانے والے) کے پاس موجود ہو، پھر مذکورہ شخص  مجلسِ نکاح میں شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں)  کی موجودگی میں حمد و صلاۃ پڑھنے کے بعد خطبۂ نکاح  میں پڑھی جانے والی آیات اور ایک دو احادیث بطورِ خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد  عورت کے وکیل سے کہے  کہ میں نے اتنے مہر کے بدلہ آپ کی موکلہ فلانہ بنت فلاں سے نکاح کیا  اور وکیل  شرعی گواہوں  کی موجودگی میں عورت  کی طرف سے قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

"و من شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد."

(کتاب النکاح،ج:3،ص:14،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان......(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه،ج:1،ص:269/267،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

(کتاب النکاح،فصل رکن النکاح،ج:2،ص:231،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں