بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہے کہ جواب میں ہاں کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے


سوال

میری شادی کو دو سال ہو گئے ہیں، میرے شوہر مردانہ بیماری میں شادی سے پہلے مبتلا تھے، جو انہوں نے کسی کو بھی نہیں بتایا ہوا تھا، اس وجہ سے وہ دو سال میں کبھی بھی میرا حق زوجیت ادا نہیں کر سکے،شادی کے چار ماہ بعد ہماری لڑائی ہوئی اور  مجھے زبردستی انہوں نے کہا کہ میں تمہیں تمہاری امی کے گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ آؤں گا، میں تمہیں کبھی لینے نہیں آؤں گا، میں نے انہیں بہت روکا  کہ مجھے میری امی کی طرف نہ  چھوڑنے جاؤ مگر وہ مجھے زبردستی میری امی کے گھر چھوڑ آئے،اور اسی دن ہماری شادی کی دعوت تھی ،بہت عزیز رشتے داروں کے گھر ،وہ میرے بغیر ہی دعوت پر چلے گئے اور بالکل کوئی رابطہ نہیں کیا، پھر دو تین دن بعد، اپنی امی ابو کے ساتھ آئے، اپنے امی ابو کے کہنے پر مجھے لے گئے وہ اپنی بیماری کا علم نہیں ہونے دیتے تھے اور وہ بس یہی چاہتے تھے کہ اسی طرح طلاق ہو کر چلی جائے،چھوٹی چھوٹی بات پہ کہتے تھے کہ اپنا سامان اٹھاؤ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ، جب میں قریب آنے کا کہہ دیتی تھی تو وہ لڑائی کرتے تھے اور اپنی بیماری کو چھپاتے تھے، یہ صورتحال دیکھ کر ایک دفعہ میں اپنی امی کے گھر چلی گئی، میں نے تو ان سے کچھ دن اپنی امی کی طرف رہنے کی اجازت مانگی تھی، انہوں نے اپنی امی کو کہا کہ یہ جا رہی ہے شاید اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گی، ان دنوں مجھ سے لڑائی کرنے لگے اور مجھ سے وعدہ کیا کہ تم آجاؤ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے، اگر میں نہ کر سکا تو تم ہمیشہ کے لئے چلی جانا میں تمہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا، پھر میرے آنے پر وہ نہ کر سکے اور اپنی بات سے مکر گئے، وہ بہت زیادہ خاندانی دباؤ میں ہیں، ان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ طلاق دے، اس وجہ سے وہ مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں، وہ اکثر کہتے ہیں کہ تم میری ماں ہو اور تم مجھے ایسے رکھا کرو جیسے میں تمہارا بچہ ہوں، تم مجھے اپنا بچہ سمجھو، تم بتاؤ میں تمہاری  کسی اور سے دوسری شادی کروا دیتا ہوں، تمہارا دوسرا شوہر تمہیں مارے گا تنگ کرے گا، ہمیشہ اس طرح کے طعنے دیتے رہتے ہیں تنگ کرتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے کوئی طلاق کی نیت سے تھوڑی کہا تھا، میں نےتو ایسے  ہی کہہ دیا تھا، جب کبھی تھوڑی سی بھی لڑائی ہوئی ہے، کوئی بات ہو ،تو بار بار یہی کہتے ہیں کہ تم مہربانی کر کے یہاں سے چلی جاؤ، اور خلع لے لو اور مجھ پر احسان کرنایہاں بالکل نہ آنا ، کچھ دن پہلے میرے شوہر بالکل خوش موڈ میں تھے انہوں نے مجھے کہا کہ  تم نے بار بار کہا تھا مجھے طلاق دے دو مجھے طلاق دے دو تو میں نے کہا کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہے؟ میرے شوہر نے مجھے کہا ہاں، میں نے پھر کئی دن بعد پوچھا تو پھر بالکل مگر گئے ،میں نے تو ایسے نہیں کہا تھا ہمیشہ ایسے کرتے ہیں کہہ دیتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں کیا طلاق ہو گی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نےکچھ الفاظ تو ایسے کہے ہیں کہ جس سے طلاق کا وقوع خود شوہر کی نیت پر موقوف ہے،مثلاً:’’ تم مہربانی کرکے یہاں سے چلی جاؤ اور خلع لے لو ‘‘وغیرہ،ان الفاظ کے بارے میں اگر شوہر واقعۃً یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے،تو سائلہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی،اسی طرح بیوی کو ’ تم میری ماں ہو ‘‘،کہنے سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی،تاہم اگر واقعۃً آخری دفعہ سائلہ کے اپنے شوہر سے یہ پوچھنے پر کہ’’ کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہے؟‘‘،شوہر نے اثبات میں ہاں کہہ کر جواب دیاتھا،تو اس جملہ سے سائلہ پر شرعاً ایک طلاقِ رجعی واقع ہوچکی ہے،جس میں دوران عدت رجوع کی گنجائش ہے،ليكن اگر شوہر اب انکار کررہا ہے،اور سائلہ کا دعوی یہ ہے کہ شوہر نے’’ ہاں‘‘ کہا تھا،تو فریقین کسی مستند عالم یا مفتی سے اپنے مسئلے کا تصفیہ کرالیں،اور وہ جو بھی فیصلہ کریں،دونوں اس پر عمل کریں۔

تاہم،اگر شوہر،دورانِ عدت رجوع کرلیتا ہے،یا فیصلہ شوہر کے حق میں آجاتا ہے،لیکن بیوی، شوہر کی نا مردگی کی بیماری کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی،تو اگر شوہر کا مرض قابل علاج ہے تو شوہر کو چاہیے کہ اپنا علاج کروائے لیکن اگر مرض ناقابل علاج ہے تو شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے علیحدگی کے مطالبہ  پر بیوی کو باعزت طریقہ سے آزاد کردے،معاملہ کو لٹکاکر بیوی کی حق تلفی نہ کرے۔

"ألبحر الرائق"میں ہے:

"وفي البزازية قالت له أنا طالق فقال نعم ‌طلقت...وكذا في الخانية ولو ‌قيل ‌له ألست طلقتها فقال بلى ‌طلقت."

(ص:274،ج:3،کتاب الطلاق،باب ألفاظ الطلاق،ط:دار الکتاب الإسلامي)

"رد المحتار علي الدر المختار"میں ہے:

"وفي الخلاصة: قيل له: ‌ألست ‌طلقتها؟ تطلق ببلى لا بنعم. وفي الفتح: ينبغي عدم الفرق للعرف.

(قوله وفي الخلاصة إلخ) عبارة الخلاصة: ‌ألست ‌طلقتها ووجد كذلك في بعض النسخ كما يفيده ما في ح.قال صاحب البحر في شرحه على المنار: وذكر في التحقيق أن موجب نعم تصديق ما قبلها من كلام منفي أو مثبت استفهاما كان أو خبرا ... وموجب بلى إيجاب ما بعد النفي استفهاما كان أو خبرا... إلا أن المعتبر في أحكام الشرع العرف حتى يقام كل واحد منهما مقام الآخر."

(ص:283،ج:3،كتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه ايضا:

"وإن نوى بأنت علي مثل أمي ، أو ‌كأمي، وكذا لو حذف علي خانية برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته ووقع ما نواه لأنه كناية وإلا ينو شيئا، أو حذف الكاف لغا وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة."

(ص:470،ج:3،كتاب الطلاق،باب الظهار،ط:ايج ايم سعيد)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال اذهبي وكلي أو قال اذهبي وبيعي الثوب ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب أن في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يكون طلاقا وفي قول زفر يكون طلاقا كذا في البدائع ولو قال لها اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث."

(ص:376،ج:1،کتاب الطلاق،ألباب الثامن في إيقاع الطلاق،ط:دار الفكر،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں