کیا اولیاء کرام سے انتقال کے بعد بھی کرامت کا صدور ہو سکتا ہے؟
صورت مسئولہ میں کرامت جو کہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نیک بندوں کے اعزاز کے لیے ہوتی ہےاور اس کا صدور زندگی میں بھی ہوسکتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ہو سکتا ہے اس لئے کہ کرا مت کا صدور اللہ تبارک وتعالی کی طرف سےہوتا ہے کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا ۔ ایسا شخص جو کہ مؤمن، متقی ، متبعِ سنت اور بدعات سے اجتناب کرنے والا ہو ، کے ہاتھوں جو خرقِ عادت (خلافِ عادت ومعمول) بات ظاہر ہوتی ہے وہ کرامت ہے، جس طرح اس کا صدور زندگی میں ہو تا ہے، اسی طرح کر امت کا صدور انتقال کے بعد بھی ہو سکتا ہے،لہذا انتقال کے بعد بھی اَولیاءِ کرام کے فیوضات و برکات وکرامت باقی رہتے ہیں ، مثلاً ان کی زیارت اور قرب سے زائرین کو برکات حاصل ہوتی ہیں اور ان پر بھی رحمت نازل ہوتی ہے؛ کیوں کہ جب اولیاءکرام پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو جو شخص ان کی زیارت کرتا ہے وہ ان کے برکات سے بھی مستفیض ہوتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :
"وأما الأولياء فإنهم متفاوتون في القرب من الله تعالى، ونفع الزائرين بحسب معارفهم وأسرارهم. قال ابن حجر في فتاويه: ولا تترك لما يحصل عندها من منكرات ومفاسد كاختلاط الرجال بالنساء وغير ذلك لأن القربات لا تترك لمثل ذلك، بل على الإنسان فعلها وإنكار البدع، بل وإزالتها إن أمكن..اهـ."
(2/ 242،كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144204200325
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن