بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اللہ تعالی گناہ گار بندوں سے محبت کرتا ہے؟


سوال

میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالی گناہ گار کو موقع دیتے ہیں اور مؤمن کو آزمائش  میں رکھتے ہیں، میرے ساتھ مال اور گھریلوی زندگی میں سخت آزمائش ہے،مجھے دل کی تکلیف بھی ہے،مجھے لگتاہے کہ میں بہت گناہ گار ہوں اور پھر آزمائشوں کو دیکھتاہوں تو گمان کرتی ہوں کہ اللہ تعالی مجھ سے محبت کرتا ہے، تو مجھے کیا گمان کرنا چاہیے؟

جواب

اللہ تعالی کی جانب سے آزمائش   نیک لوگوں پر ان کے رفع درجات  ،قربت اور نزدیکی  حاصل ہونے کے لیے  اور گناہ گار لوگ ان کی معصیت اور گناہوں کی مغفرت اور ازالہ کے لیے آتی ہیں، رسول اللہ ﷺسےسوال کیا گیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی، پھر درجہ بدرجہ جو اُن سے زیادہ قریب ہوتاہے، چناں چہ آدمی کو اپنی دینی حالت کے مطابق آزمایا جاتاہے، سو اگر اس کا ایمان مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کے دین میں کم زوری ہو تو اپنی دینی حالت کے بقدر آزمایا جاتاہے، بہرحال آزمائش بندہ مؤمن کے ساتھ لگی رہتی ہے یہاں تک کہ اسے اس حال میں لےجاکر چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چلتاہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا‘‘

نیز اللہ تعالی کی محبت صرف نیک لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالی ان لوگوں سے بھی محبت کرتاہے اورتعلق رکھتاہے جن سے گناہ سرزد ہوتےہیں، لیکن  اپنے گناہوں پر پشیمانی کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘(بیان القرآن)

لہذا سائلہ کو چاہیے کہ ان آزمائشوں پر صبر  کرے اور  جب تک آزمائشیں ہیں اللہ تعالی سے صبر کی توفیق کی دعا  کرے، اور  یہ سوچے کہ یہ آزمائشیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں اور  ہر ایک مسلمان پر  اس کے رفع درجات اور گناہوں کی معافی کی وجہ سے آتی ہیں، نیز اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے آسانی اور عافیت  کی بھی دعا کرتی رہے۔

شرح الطیبی میں ہے:

"وعن سعد، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الناس أشد بلاء؟ قال: ((الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل، يبتلي الرجل علي حسب دينه فإن كان صلبا في دينه اشتد بلاؤه، وإن كان في دينه رقة هون عليه، فما زال كذلك حتى يمشي علي الأرض ما له ذنب)). رواه الترمذي، وابن ماجة، والدارمي، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح فإن قلت: ما الفائدة في اختلاف ((صلبا ورقة))؟ قلت: الأول وصف للرجل، والتنكير فيه للتعظيم، والثاني وصف للدين، والتنكير فيه للتقليل؛ فيفيد أن من كان صلبا في دينه فهو أشد بلاء، ومن كان أرق فيه كان أقل بلاء. وفيه تنبيه علي أن المطلوب من الرجل الكامل أن يكون صلبا في دينه، وكونه رقيق الدين ليس من شيمته. وقوله: ((فما زال كذلك)) الضمير راجع إلي اسم ((كان)) الأول دون الثاني، و ((كذلك)) إشارة إلي اشتداد البلاء. وقوله: ((يمشي علي الأرض ما له ذنب)) كناية عن سلامته عن الذنب، وخلاصه عنه، كأنه كان محبوسا، فأطلق وخلي سبيله، فهو يمشي ما عليه بأس."

(كتاب الجنائز، ج:4،ص:1349، ط:مكتبة نزار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں