ایک مجلس میں عرض کیا کہ صحابہ معیار حق ہیں تو ایک صاحب نے بڑی دیدہ دلیری سے جواب دیا کہ سورۃ البینہ میں ایک صحابی کو خدا نے منافق کہہ کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تنبیہ کی کہ ہر خبر دینے والے کی بات پر یقین نہ کرنا، بہت تعجب اور دکھ ہوا، اس واقعے کی حقیقت کیا ہے اور پھر صحابہ معیار حق کا کیا مفہوم ہے؟
اللہ تبارک و تعالی نےسورۃ البینۃ یا پورے قرآن کی کسی بھی آیت میں کسی صحابی کو منافق قرار نہیں دیا، ایسا دعوی لاعلمی او ر جہالت کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عداوت کا شاخسانہ ہے جس سے ایمان سلب ہونےکا قوی اندیشہ ہے۔
نیز جہاں تک اس کا بات کا تعلق ہے کہ’’ ہر خبر دینے والے کی بات پر یقین کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے‘‘ تو یہ حکم سورۃ الحجرات کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:
"{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ} [الحجرات: 6]"
مفتی ٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی ؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس واقعے کی حقیقت اور صحابہ ٔ کرام کے معیار حق ہونے پر اس آیت کے ذیل میں مفصل کلام کیا ہے، جسے وہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144110201258
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن