بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عالم کا سونا غیر عالم کی عبادت سے افضل ہے؟ نیز کیا یہ حدیث کے الفاظ ہیں؟


سوال

کیا عالم کا ساری رات سونا جاهل کے ساری رات عبادت کرنے سے افضل ہے؟

جواب

 اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک علم  بہت ہی افضل شے  ہے، جس کی وجہ سے صاحبِ علم کابھی  اللہ تعالیٰ کے نزدیک  بلند اور مخصوص  مقام  ہے، قرآن پاک  میں اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے :" ‌هَلْ ‌يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لايَعْلَمُونَ"یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے، کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے؛ لیکن وہ ایک عالم باعمل کے حقیقی مقام کو نہیں پا سکتا ہے۔اسی طرح  احادیثِ مقدسہ میں بھی  علم اور علماء کے بہت زیادہ فضائل   وارد ہوئے ہیں، جن سے عالم کی غیر عالم پر فضیلت ثابت ہوتی ہے، چناں چہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  علم کو عبادت سےافضل قرار دیا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"فقیه واحد أشد علی الشیطان من ألف عابد"

یعنی ایک فقیہ عالم شیطان کے لیے ایک ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔

نیز علم اور علماء کی فضیلت سے متعلق  بے شمار احادیث و آثار  موجود ہیں ،جن کو دیکھتے ہوۓ بلا شک و شبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ علماء کو دوسرے تمام افرادِ امت پر فضیلت حاصل ہے، اور ان  کی علم پر  عالمانہ شان سے  قائم نیند ،دیگر افراد کی بغیر علم کی  عبادت سے  بہتر ہے، تاہم یہ بات بھی واضح رہے کہ جن احادیث و آثار  میں علم اور علماء کی عبادت پر ترجیح بیان کی گئی ہے، ان سے عبادت  کی اہمیت کو کم کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے،بل کہ درحقیقت عند اللہ ،علم اور علماء کے مقام کو اجاگر کرنا اور  حصولِ علم کی ترغیب دینا  ہے، عبادت کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ مُسَلَّم ہے۔

نیز یہ  بھی واضح رہے کہ آج کل بعض عوام میں   یہ مشہور ہے کہ  "عالم کا سونا عبادت ہے" یا "عالم کا سونا جاہل  کی ساری رات کی عبادت سے افضل ہے"   یہ  حدیث کے الفاظ ہیں، جب کہ درحقیقت یہ الفاظ  ذخیرۂ احادیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ،جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"حديث"نوم العالم عبادة "لا أصل له في المرفوع هكذا، بل ورد نوم الصائم عبادة وصمته تسبيح وعمله مضاعف ودعاؤه مستجاب وذنبه مغفور. رواه البيهقي بسند ضعيف عن عبد الله بن أبي أوفى."

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، حر ف النون، ص:374، ط: مؤسسة الرسالة)

"ترجمہ: "عالم کا سونا عبادت ہے" بایں تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہونے کی کوئی اصل نہیں ہے، بل کہ ان الفاظ میں ایک ضعیف  حدیث  امام بیہقی  رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ  کے حوالے سے نقل فرمائی ہے اور وہ یہ ہے :روزے دار کا سونا عبادت ہے،اس کا خاموش رہنا تسبیح ہے، اس کے عمل کا ثواب دُگنا ہے،اس کی دعا قبول کیے جانے کے لائق ہے اور اس کے گناہ معا ف ہیں ."

واضح ہوا کہ مذکورہ بالا عبارت کے مطابق ان الفاظ میں یہ حدیث موجود نہیں ہے، تاہم  یہ معنیٰ ایک ضعیف روایت سے ثابت ہے،چناں چہ خود ملا علی قاری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ نے "حلیۃ الاولیاء "میں  بطریقِ سلمان مرفوعاً روایت کیا ہے:

"لكن روى أبو نعيم في الحلية عن سلمان نوم على علم خير من صلاة على جهل ففي الجملة من كان عالما فنومه عبادة لأنه ينوي به النشاط على الطاعة."

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة،حرف النون، ص:374، ط: موسسة الرسالة)

ترجمہ:ابونعیم رحمہ اللہ نے حلیۃ الاولیاء میں بطریقِ سلمان  یہ حدیث روایت  کی ہے کہ"علم پر قائم نیند،جہالت پر قائم نماز سے  بہتر ہے" الغرض عالم کی نیند بھی اس کے حق میں عبادت ہے کیوں کہ یہ عبادت میں نشاط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے."

خلاصہ یہ ہے کہ  محدثین کے نزدیک یہ روایت لفظاً کہیں ثابت نہیں ،البتہ ایک ضعیف حدیث سے اس کا معنیٰ ومفہوم ثابت ہوسکتا ہے۔

(منقول از  "مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ"بتغییر یسیر،ص:231، ط:مکتبہ مسیح الامت)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌فقيه ‌واحد أشد على الشيطان من ألف عابد»."

(باب فضل العلماء والحث على طلب العلم،81/1،ط: دار إحياء الكتب العربية)

جامع بیان العلم وفضلہ میں ہے:

"عن عمرو بن قيس الملائي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فضل العلم خير من فضل العبادة وملاك الدين الورع»."

(‌‌ ‌‌باب تفضيل العلم على العبادة،106/1،ط: دار إبن جوزي)

وفیہ ایضاً:

" عن عبد الله بن عمرو بن العاص عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "قليل العلم خير من كثير العبادة..."

(‌‌باب تفضيل العلم على العبادة، 99/1، ط:دار إبن جوزي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں