بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اجیر خاص سے دوسری خدمت لیناجائزہے؟


سوال

کیااجیر خاص سے دوسری خدمت لیناجائزہے؟مسجد میں توسیع و تعمیر کا کام شروع ہیں ،اس دوران  مسجد کے خادم اور مؤذن سے مسجد میں اضافی کام لینا ان کے ساتھ توڑ پھوڑکر لے تو اس کی اجرت  مسجد کے اجتماعی چندہ سے ان کو اضافی پیسے دیناجائز ہے؟ وضاحت فرمائیں ۔

جواب

کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں   مسجد کے خادم اورمؤذن سے ملازمت کے اوقات کے علاوہ اضافی کام چوں کہ  ملازمت کی مفوضہ ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہیں تو  مسجد کے خادم یا مؤذن سے اضافی کام لینے کے صورت میں دوسرے مزدوروں کی طرح ان کو بھی مسجد کے چندہ سے اضافی اجرت   دے سکتے ہیں۔ 

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ ،انواع الاجیر،ج:2،ص:236،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل ،قال أبو السعود: يعني وإن نقض عمل الأجير رجل، بخلاف ما لو كان النقض منه فإنه يضمن كما سيأتي(قوله حتى يعمل)  لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجية."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجارۃ،ج:6،ص:64،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403100731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں