بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آپ ﷺ نے اپنی تدفین مدرینہ منورہ میں کرنے کی وصیت فرمائی تھی؟


سوال

 کیا رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنی تدفین مدینہ کی بابت کوئی وصیت فرمائی تھی  کہ آپ   کی  تد فین  مدینہ  میں  کی  جائے؟  کیوں کہ علماء غزوہ حنین پر بیان فرمودہ تقریر جس کے مخاطب انصار تھے  سے استنباط کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے  آپ ﷺ  کے  الفاظ پورے فرمائے کہ مہاجرین کو مال اورانصار کو رسول اللہ  ملے!

جواب

رسول اللہ  ﷺ  کی اپنے مقامِ تدفین  کی تعیین سے متعلق وصیت  احادیث  وسیرت کی کتب  میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکی، اگر  آپ  ﷺ  نے  اپنی تدفین سے متعلق  وصیت کی ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو نقل فرماتے اور  آپ  ﷺ کے  رحلت فرمانے کے بعد  جہاں آپ کی تجہیز وتکفین، اور  تدفین کا مسئلہ زیر بحث آیا  وہاں  یہ  بات بھی سامنے  لائی  جاتی، آپ  ﷺ  کی تجہیز وتکفین سے متعلق  بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺنے حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ  کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کے علاوہ آپ ﷺ کو  کوئی  غسل نہ دے اور  یہ کہ وہ (حضرت علی) اہلِ بیت کے تعاون سے آپ ﷺ کو غسل دیں؛   اس لیے غسل وغیرہ کا انتظام اہلِ بیت  رضوان اللہ علیم اجمعین نے سنبھالا ہوا تھا۔  جیساکہ ’’البدایہ والنھایہ‘‘  میں ہے :

"وقال البيهقي: وروى أبو عمرو بن كَيْسَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بِلَالٍ سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَايُغَسِّلَهُ أَحَدٌ غَيْرِي. فَإِنَّهُ لَايَرَى أَحَدٌ عَوْرَتِي إِلَّا طُمِسَتْ عَيْنَاهُ. قَالَ عَلِيٌّ: فَكَانَ العبَّاس وَأُسَامَةُ يُنَاوِلَانِي الْمَاءَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ".

(البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)

" وَقَدْ تَقَدَّمَ الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، وَالْبَزَّارُ مِنْ حَدِيثِ الْأَصْبَهَانِيِّ كِلَاهُمَا عَنْ مُرَّةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: فِي وَصِيَّةِ النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم أَنْ يُغَسِّلَهُ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَأَنَّهُ قَالَ: كفِّنوني في ثيابي هذه أو في يمانية أَوْ بَيَاضِ مِصْرَ، وَأَنَّهُ إِذَا كفَّنوه يَضَعُونَهُ عَلَى شَفِيرِ قَبْرِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ عَنْهُ حتَّى تُصَلِّيَ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهِ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ النَّاس بَعْدَهُمْ فُرَادَى.الْحَدِيثَ بِتَمَامِهِ وَفِي صِحَّتِهِ نَظَرٌ كَمَا قَدَّمْنَا".

(البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 285)

اسی طرح جب  یہ  معاملہ آیا کہ  آپ ﷺ  کی تدفین کہاں کی جائے؟ اور صحابہ کرام اور اہلِ  بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملہ میں مضطرب ہوئےتو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی اس کی راہ نمائی کی کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کا جہاں انتقال ہو، اسی جگہ دفن کیا جائے۔  اور آپ رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ  کی وفات والی جگہ ہی آپ کی قبر بنائی گئی ۔

"أَنَّ أَصْحَابَ النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم، لم يدروا أين يقبروا النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم؟ حتَّى قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لم يقبرني إلا حيث يموت، فأخَّروا فراشه وحفروا تَحْتَ فِرَاشِهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَهَذَا فِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ وَبَيْنَ الصِّدِّيقِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، لَكِنْ رَوَاهُ الْحَافِظُ أَبُو يَعْلَى: مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عبَّاس وَعَائِشَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ. فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْهَرَوِيُّ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ. قَالَتْ: اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُبِضَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم يَقُولُ: " لَايُقْبَضُ النَّبيّ إِلَّا فِي أَحَبِّ الْأَمْكِنَةِ إِلَيْهِ" فَقَالَ ادْفِنُوهُ حَيْثُ قُبِضَ. وَهَكَذَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ عَنْ أَبَى كُرَيْبٍ عَنْ أَبَى مُعَاوِيَةَ عَنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سمعت من رسول الله شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: " مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ". ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ. ثُمَّ إِنَّ التِّرمذي ضعَّف الْمُلَيْكِيَّ، ثُمَّ قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ ابْنُ عبَّاس عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنِ النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم".

(البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 287)

اگر آپ ﷺ نے وصیت کی ہوتی کہ مجھے فلاں جگہ دفنایا جائے تو ایسے موقع پر صحابہ کرام اس کا ضرور ذکر کرتے ، بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آپ کی یہ حدیث ذکر فرمائی کہ جہاں نبی کا انتقال ہو وہیں اسے دفنایا جائے، البتہ مذکورہ حدیث میں یہ الفاظ ضرور ہیں کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض ہوتی ہے جس جگہ اسے دفن ہونا پسند ہوتا ہے، اور آپ ﷺ کو انصاراور مدینہ سے محبت بھی تھی اور آپ ﷺ نے آخر تک وہیں رہنے کو ترجیح دی۔

باقی جہاں تک سوال میں ذکر کردہ حدیث ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر جب قبیلہ ہوازن کا مال غنیمت آیا تو آپ  ﷺ  نے  قریش کے نو مسلموں کو  کچھ زیادہ عطاکیا، تو جس پر بعض انصاری نوجوانوں کو شکوہ ہوا، جس پر آپ ﷺ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ چوں کہ نومسلم ہیں؛ اس لیے ان کی تالیف قلب کے ایسا کیا ہے، نہ کہ اس وجہ سے وہ آپ ﷺ  کا  قبیلہ ہے،   اور پھر ان کو یوں تسلّی دی کہ ” کیا تم راضی نہیں کہ لوگ دنیا لے کر گھروں کو لوٹیں اور تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ  اپنے گھروں کو لوٹو“ جس پر انصار بخوشی اس پر راضی ہوگئے۔ ان احادیث کی تفصیل درج ذیل ہے :

مشكاة المصابيح (3/ 1751):

"وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَالُوا حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ فَطَفِقَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَحَدَّثَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالَتِهِمْ فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مَنْ أَدَمٍ وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: «مَا كَانَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟» فَقَالَ فُقَهَاؤُهُمْ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُ الْأَنْصَارَ وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» . قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قد رَضِينَا. مُتَّفق عَلَيْهِ."
ترجمہ: " اور حضرت انس  ؓ  کہتے ہیں کہ انصار کے بعض لوگوں نے اس وقت شکوہ کا اظہار کیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو قبیلہ ہوازن کا وہ مال غنیمت عطا کرنا تھا اور آنحضرت ﷺ نے قریش میں کے کئی لوگوں کو سو سو اونٹ دینا شروع کئے چنانچہ انصار میں سے ان بعض لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بخشے آپ ﷺ قریش کو تو (اتنا زیادہ ) عطا کر رہے ہیں اور ہم کو زیادہ نہیں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے، چنانچہ رسول کریم ﷺ کے علم میں جب ان لوگوں کا یہ شکوہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان تمام انصار کو بلا بھیجا اور ان کو اپنے اس خیمہ میں جمع کیا جو چمڑے کا بنا ہوا تھا ۔ ان کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں بلایا گیا تھا ۔ (یعنی صرف انصار ہی کو جمع کیا گیا ، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں بلایا گیا تھا ) جب سب انصار جمع ہوئے تو رسول کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھ کو پہنچائی گئی ہے ؟ ان (انصار ) میں جو عقل مند ودانا لوگ تھے وہ بولے : یا رسول اللہ ﷺ !ہم میں سے عقلمند اور ذی رائے لوگوں نے کچھ نہیں کہا ہاں ہم میں سے کچھ نوعمر اور نوجوان لوگوں نے (نا سمجھی سے یہ بات ضرور کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بخشے ۔ آپ ﷺ قریش کو تو (اتنا زیادہ ) عطا کر رہے ہیں اور ہم انصار کو (زیادہ ) نہیں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ابھی ابھی (چند ہی روز پہلے ) کافر تھے انہی کو میں (اس مال میں سے ) دے رہا ہوں ( اور اس طرح ) ان کا دل ملاتا ہوں (یعنی ان کو زیادہ دینے کا واحد مقصد تالیف قلوب ہے ۔ تاکہ وہ اسلام پر قائم رہیں ) اس کے علاوہ اور کوئی مقصد یا جذبہ کار فرما نہیں ہے ۔ اور اے انصار ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ (تمہارے علاوہ وہ ) لوگ (کہ جو مولفتہ القلوب ہیں ) مال واسباب لے کر یہاں لوٹیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو لے کر اپنے مکانوں کو واپس جاؤ ۔ انصار (آپ ﷺ کا یہ پر اثر ارشاد سن کر ) بول اٹھے ہاں یا رسول اللہ ﷺ !ہم اس پر راضی ہیں ۔ " (بخاری ومسلم ) 

صحيح مسلم (2/ 733):

"عن ابن شهاب، أخبرني أنس بن مالك، أن أناسا من الأنصار قالوا: يوم حنين، حين أفاء الله على رسوله من أموال هوازن ما أفاء، فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي رجالا من قريش، المائة من الإبل، فقالوا: يغفر الله لرسول الله، يعطي قريشا ويتركنا وسيوفنا تقطر من دمائهم، قال أنس بن مالك: فحدث ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، من قولهم، فأرسل إلى الأنصار، فجمعهم في قبة من أدم، فلما اجتمعوا جاءهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما حديث بلغني عنكم؟» فقال له فقهاء الأنصار: أما ذوو رأينا، يا رسول الله، فلم يقولوا شيئا، وأما أناس منا حديثة أسنانهم، قالوا: يغفر الله لرسوله، يعطي قريشا ويتركنا، وسيوفنا تقطر من دمائهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «فإني أعطي رجالا حديثي عهد بكفر، أتألفهم، أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال، وترجعون إلى رحالكم برسول الله؟ فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به» فقالوا: بلى، يا رسول الله، قد رضينا، قال: «فإنكم ستجدون أثرة شديدة، فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله، فإني على الحوض» قالوا: سنصبر."
ترجمہ: حضرت  انس بن مالک  ؓ  روایت ہے انصار میں سے بعض لوگوں نے حنین کے دن عرض کیا جب اللہ نے اپنے رسول کو اموالِ ہوازن میں سے کچھ مالِ فے (یعنی بغیر جہاد) عطا فرمایا پس رسول اللہ ﷺ نے قریشیوں کو سو سو اونٹ دینے شروع فرمائے تو انہوں نے کہا کہ اللہ اپنے رسول سے درگزر فرمائے کہ آپ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ہماری تلواریں ان کا خون بہاتی ہیں، انس  ؓ  کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلوایا کہ وہ چمڑے کے قبہ میں جمع ہوں جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس جا کر فرمایا مجھے تم سے کیا بات پہنچی ہے؟ تو آپ سے انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ہم سے بعض نوعمر عام لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ اپنے رسول اللہ ﷺ سے درگزر فرمائے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کو عطا کر رہیہیں اور ہماری تلواریں ان کا خون بہاتی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے کفر کا زمانہ قریب ہی گزرا ہے تاکہ ان کو جمع کروں تاکہ تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ( ﷺ ) کے ساتھ لوٹو اللہ کی قسم جو چیز لے کر تم واپس لوٹو گے وہ بہتر ہے اس سے جو وہ لے کر لوٹیں گے تو انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ہم خوش ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تم اس کے رسول ﷺ سے ملاقات کرو گے اور میں حوض پر ہوں گا انصار نے عرض کیا ہم صبر کریں گے۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 4008):

"فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني أعطي ") ، أي: من هذا المال (" رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم ") ، أي: أطلب ألفتهم بالإسلام بإعطاء المال لا لكونهم من قريش أو لغرض آخر من الأحوال (" أما ترضون أن يذهب الناس ") ، أي: غيركم من المتألفة قلوبهم (" بالأموال وترجعون إلى رحالكم ") بكسر الراء أي: منازلكم في المدينة ("برسول الله ") وفي نسخة  صلى الله عليه وسلم (قالوا: بلى يا رسول الله قد رضينا) . فيه تأكيد لما فهم من بلى، وما أحسن من قال من أرباب الذوق والحال:
رضينا قسمة الجبار فينا ... لنا علم وللأعداء مال
فإن المال يفنى عن قريب ... وإن العلم يبقى لا يزال
."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں