بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نو ذی الحجہ کو روزہ رکھنے والے کو اس سال موت نہیں آئے گی؟


سوال

ایک مولانا صاحب کا بیان سنا ہے، انہوں نے فرمایا کہ 9 ذولحجہ کا روزہ جو رکھے گا اس کو اس سال موت نہیں آسکتی اور  جس کو اس  سال موت آسکتی ہوگی تو اللّہ پاک اس کو توفیق ہی نہیں دیں گے روزہ رکھنے کی،  رہنمائی فرمادیجیے کہ محدثین نے ایسا کچھ لکھا ہے؟

جواب

نو ذی الحجہ کے روزے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، چنانچہ  مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ  عرفہ (یعنی نو ذوالحجہ )کاروزہ دوسالوں کے گناہوں کاکفارہ ہے،ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کا، لیکن سوال میں اس کے متعلق جو بات لکھی ہے ایسی کوئی بات کسی جگہ نہیں ملی۔

شاید مذکورہ حدیث میں موجود اس جملے سے انہوں نے استدلال کرلیا ہو کہ جب نو ذی الحجہ کا روزہ آئندہ سال کے گناہوں کا بھی کفارہ بن جاتاہے، تو معلوم ہوا کہ وہ شخص آئندہ سال بھی جیے گا، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ عرفہ کا روزہ رکھنے والے کی بھی آئندہ سال  کے دوران موت ہوسکتی ہے، اور روزہ نہ رکھنے والا آئندہ سال زندہ بھی رہ سکتاہے،  بلکہ آئندہ سال کے گناہ معاف ہونے کا مفہوم  محدثینِ کرام نے یہ بیان کیا ہے:

"ومعنى تكفير السنة الآتية أن يحفظه الله من الذنوب أو يعطيه من الرحمة، والثواب بقدر ما يكون كفارة للسنة الماضية والقابلة إذا جاءت واتفق له فيها ذنوب. انتهى. وقال الشوكاني: المراد يكفره بعد وقوعه أو المراد أنه يلطف به فلا يأتي بذنب فيها بسبب صيامه ذلك اليوم."

"آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے محفوظ رکھیں گے یا اسے رحمت عطا فرمائیں گے، اور اتنا ثواب عطا فرمائیں گے جو گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کے کفارے کے بقدر ہوگا، اگر آئندہ سال اس کی زندگی رہی اور اس سے گناہ سرزد ہوگئے۔  اور امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مراد یہ ہے کہ گناہ واقع ہونے کے بعد معاف فرمادیں گے، یا مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے لطف و کرم کا معاملہ فرمائیں گے؛ لہٰذا اس دن کے روزے کے سبب وہ گناہ ہی نہیں کرے گا۔"

حدیث شریف میں ہے:

''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَ السَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ."

(مسلم:1162،ابوداؤد:2425،ترمذی:749،ابن ماجه: 1730، احمد:22530)

ترجمہ:مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 61):

(والسنة التي بعده) قال إمام الحرمين: والمكفر الصغائر. قال عياض: وهو مذهب أهل السنة والجماعة. وأما الكبائر فلايكفرها إلا التوبة أو رحمة الله. وقال النووي: قالوا المراد بالذنوب الصغائر، وإن لم تكن الصغائر يرجى تخفيف الكبائر فإن لم تكن رفعت الدرجات. انتهى. قال في المفاتيح: أي يستر ويزيل ذنوب صائم ذلك اليوم ذنوبه التي اكتسبها في السنة الماضية والسنة الآتية، و معنى تكفير السنة الآتية أن يحفظه الله من الذنوب أو يعطيه من الرحمة، والثواب بقدر ما يكون كفارة للسنة الماضية والقابلة، إذا جاءت واتفق له فيها ذنوب. انتهى. وقال الشوكاني: المراد يكفره بعد وقوعه أو المراد أنه يلطف به فلا يأتي بذنب فيها بسبب صيامه ذلك اليوم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں