بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد ساتھ رہنے کی گنجائش


سوال

میرے شوہر نے مجھے چار پانچ سال پہلے دو طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرلیا تھا اور پھر ایک سال پہلے اس نے مجھے تیسری طلاق بھی غصے کی حالت میں دے دی تھی، ہماری علیحدگی غصے کی حالت میں معمولی جھگڑے کی وجہ سے ہوئی، میرے دو چھوٹے بچے ہیں جو میری محبت اور شفقت سے محروم ہیں، میں اور میرے سابقہ شوہر یہ چاہتے ہیں کہ ہم واپس نکاح کر کے ساتھ رہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک ہوجائیں، آپ سے گزارش ہے  ہمارے اس مسئلہ کا حل بتادیجیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ غصے کی حالت  میں دی جانے والی بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے، اورطلاق عموماً غصہ میں ہی دی جاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے شوہر نے ایک سال پہلے غصے کی حالت میں آپ کو تیسری طلاق دے دی تھی تو اس وقت مجموعی طور پر آپ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، آپ دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے اور آپ سابقہ شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں، اب رجوع یا تجدیدِ نکاح کر کے ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، عدت ( یعنی تین ماہواریاں بشرطیکہ حمل نہ ہو) گزرنے کے بعد سے آپ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہیں، دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد اس کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس کی عدت گزرنے کے بعد آپ کے لیے پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

نوٹ: میاں بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ سے جدائی ہونے کی صورت میں بیٹا سات سال کی عمر تک اور بیٹی نو سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں  رہے گی، مذکورہ عمر کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہے اس لئے  والد کے پاس رہیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام : أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني : أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث : من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافًا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش."

 

( كتاب الطلاق۔ ج: 3، صفحہ: 244 ، ط: ایچ، ایم، سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحلّ له حتى تنكح زوجاً غيره ‌نكاحاً ‌صحيحاً ويدخل بها ثم يطلّقها أو يموت عنها. كذا في الهداية."

(الفتاوی الهندیة، کتاب الطلاق، الباب السادس، فصل في ماتحل به المطلقة و مایتصل به، ج:۱،ص:۴۷۳، ط: دار الفکر)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

 

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".

(3/566، باب الحضانة، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں