بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا 24 گھنٹوں سے کم وقت کے لیے پہنے گئے موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے؟


سوال

کیا 24 گھنٹوں سے کم وقت کے لیے پہنے گئے موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً ایک آدمی فجر کے وضو کے بعد موزے پہنتا ہے ۔ اس کا ارادہ ہے کہ دوپہر میں موزے اتار دے گا ۔ اب اسے 8 بجے وضو کی ضرورت پڑی تو کیا یہ شخص وضو میں پاؤں دھوئے یا مسح کرے؟

جواب

اگر موزے مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں اور پاکی کی حالت میں پہنے گئے ہوں تو پاوں دھونے کی بجائے ان موزوں پر مسح جائز ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو یا صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں: (1) اتنے موٹے  ہوں کہ ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔  (2 )اتنے مضبوط ہوں کہ وہ موزے پہن کر(بغیر جوتوں کے بھی )تین میل پیدل چلنا ممکن ہو۔ (3)  سخت بھی ایسی ہوں کہ بغیر باندھے پنڈلی سے نہ گریں، ان پر بھی مسح جائز ہے، ان کے علاوہ اونی سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔

مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گھنٹے ہیں ، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر گھنٹے ہیں، یہ مدت موزے پہننے کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص  24 گھنٹوں سے کم وقت کے لیے بھی مذکورہ شرائط کے ساتھ مذکورہ موزے پہنے تو وہ مسح کر سکتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا الثوري، عن عمرو بن قيس الملائي، عن الحكم بن عتيبة، عن القاسم بن مخيمرة، عن شريح بن هانئ، قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبي طالب، فسله فإنه كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه فقال: «جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم» قال: وكان سفيان، إذا ذكر عمرا، أثنى عليه."

(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح على الخفين، ج: 1، صفحہ: 204، رقم الحدیث: 276، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ومنها) أن يكون في المدة وهي للمقيم يوم وليلة وللمسافر ثلاثة أيام ولياليها. هكذا في المحيط سواء كان السفر سفر طاعة أو معصية. كذا في السراجية وابتداء المدة يعتبر من وقت الحدث بعد اللبس حتى إن توضأ في وقت الفجر ولبس الخفين ثم أحدث وقت العصر فتوضأ ومسح على الخفين فمدة المسح باقية إلى الساعة التي أحدث فيها من الغد إن كان مقيما. هكذا في المحيط ومن اليوم الرابع إن كان مسافرا. هكذا في محيط السرخسي."

(کتاب الطہارۃ، الباب الخامس فی المسح على الخفين، الفصل الأول في الأمور التی لا بد منها في جواز المسح، ج: 1، صفحہ: 33، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں