بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا دو بیویوں میں سلسلہ ولادت میں بھی برابری ضروری ہے؟


سوال

بخدمت جناب مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے، اللہ تعالیٰ عز وجل شانہ آپ پر بے شمار برکت نازل فرمائے، اور آپ کا بابرکت سایہ ہم سیاہ کاروں پر تادیر قائم رکھے آمین۔ عرصہ ہوا کہ سوچ سوچ کر ہی رہ جاتا تھا ایک استفتاء آنجناب کی خدمت بابرکت میں ارسال کرکے جواب حاصل کروں،مگر کچھ تو حالات کی ستم ظریفی،اور کچھ اور کچھ اپنی بے توجہی رہی کہ حال دل عرض کرنے کی ہمت نہ بنا سکا،بحر حال میری بیوی کی وجہ سے آج مجبور ہوا کہ عریضہ لکھ کر جواب حاصل کر وں۔میرا یہ عریضہ نہ چاہتے ہوئے ہر چند کہ ہم نے بہت سی باتوں کو نظر انداز کر دیا ہے پھر بھی زیادہ ہو گیا ہے،آنجناب سے گذارش ہے کہ مجھ سیاہ کار پر تنگی نہ کریں جیسا کہ ہمارے بزرگان علمائے دیوبند کثر اللہ جماعتہم کا مزاج ہے۔میری زوجہ محترمہ کو کیا ہوا سوال من و عن یہ ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کی دو بیوی ہو اور وہ ایک بیوی کے ساتھ نا مرد بن جائے اور دوسری کے ساتھ بچے پیدا کرے،اگر ایسا ہو تو پہلی بیوی کیا کرے؟اور آدمی پر کیا وعید ہے؟قرآن سنت اور حدیث کے حوالے سے اس مسئلے کا حل پوچھ کر بتاؤ۔(واضح ہو کہ مجھے پہلی بیوی سے تین بچے ہیں اور دوسری بیوی سے کوئی بچہ نہیں،ساجد عفی عنہ) میں نے اپنی زوجہ سے کہا کہ سوال پورا لکھ کر دو میں جواب منگوا دوں گا، انکی طرف سے جواب آیا کہ سوال پورا ہے،زبانی ہی پوچھ لو۔لیکن اس سوال میں جو پوشیدہ بات ہے، یا یوں کہیے کہ جو بات ہے اسے چھپا کر بات کا بتنگڑ بنانا مقصد مجھے محسوس ہوا تو میں نے ضروری سمجھا کہ اس سوال کے پیچھے موجود اصل مسئلہ لکھ دوں انتہائی مختصر انداز میں، وجہ اس استفتاء کو آپ کو دینے کی یہ ہے کہ میری زوجہ محترمہ نے دارالقضاء مالیگاؤں میں مجھ پر مقدمہ بھی قائم کرنا چاہا تھا میں بڑا خوش ہوا کہ چلو اچھا ہے کہ کم از کم میرے بزرگوں کے سامنے باتیں آہی جائے گی اس لئے مجھے اچھا لگا تھا مگر نہ جانے کس وجہ سے انہوں نے مقدمہ واپس لے لیا۔ تقریباً دس سال ہوئے ہمار ی شادی کو، لیکن میں نے ہمیشہ اپنی زوجہ کی طرف سے سرد مہری محسوس کی اس دوران کافی باتیں بھی ہوئیں،بحر حال سمجھوتہ کر لیا کہ اب ہر چیز تو ہر آدمی کو ملے ایسا نہیں ہے، کچھ عرصے کے بعد ہم اپنا محلہ چھوڑ کر دوسرے محلے میں رہنے چلے گئے اس وقت ماحول ایسا ہوا کہ مکان میری قوت خرید سے باہر تھا مجھے کچھ دنوں بعد میری زوجہ نے کہا کہ اس کا حصہ اسکی ماں دینا چاہتی ہیں تو وہ پیسہ لے کر میں مکان بنوا لوں،بادل نخواستہ میں تیار ہو گیا، اور والد صاحب کی زمین اور زوجہ کی دی ہوئی اس کے حصے کی رقم سے مکان بنوا لیا جب سسرال سے پیسے کی بات ہوئی اسوقت میں نے بات کی تھی کہ مکان بننے کے بعد زوجہ کی رقم لوٹا دی جائے گی،مکان کے کاغذات بنواتے وقت نام کے معاملے میں میری زوجہ نے کہا کہ میری ماں نے اتنا پیسہ دیا ہے اسکی گیارنٹی کیا ہو گی میرا نام بھی اس مکان میں شامل کیا جائے میں نے حامی بھر لی اور انہوں نے اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوایا شرعاً اس میں قباحت نہیں تھی،مگر ملکی قباحت موجود تھی میں نے اعتراض کیا تو مجھے جواب ملا ہمارے یہاں ایسا ہی چلتا ہے،خیر بات آئی گئی ہو گئی، نئے مکان میں رہتے ہوئے کافی گرما گرمی رہنے لگی،میں پورا گھرانہ لے کر چلنا چاہتا تھا اور مجبور تھا کہ جو لوگ پیسے دیتے وقت گیارنٹی مانگتے ہیں وہ آگے بھی کچھ کر سکتے ہیں اس وجہ سے ہمیشہ خاموش رہتا،لیکن والدہ صاحبہ اور زوجہ میں ہمیشہ گرمی رہی، میں نے کبھی اس دوران نہ اپنے سسرال والوں کو برا کہا نہ ساس کو،مگر میری زوجہ ہمیشہ میری ماں کو گالی دے دیتی،میں برداشت کرتا کہ والدہ کو ہی سمجھا کر خاموش کروا دیتا، مجبور تھا کہ مجھے پتا چل چکا تھا کہ زوجہ اور اسکی والدہ بہت فتین اور منہ زور ہیں بات سے بات نکالیں گے انجام جھگڑا ہو گا،میں سوچا کرتا کہ میرے بھائی بہن اور والدہ نے فاقے کاٹے ہیں اگر اس نے انہیں باہ نکال دیا تو میرے پاس کوئی راستہ نہ بچے گا،میری زوجہ میرے بڑے بھائی کو بھی برا بولتی جب کہ اسوقت تک میں نے کبی زوجہ کے بھائی کو برا نہیں کہا بلکہ کئی معاملات میں اسکی مدد کی،میرے بڑے بھائی اللہ پاک اسے جائے خیر دے فاقے کے دنوں میں محنت مزدوری کر کے اس نے ہمارا پیٹ بھرا،بڑی بہن اور والدہ دن رات چرخہ چلاتیں اور ہمارا خرچ اٹھاتیں،المختر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہفتوں ہمارے گھر اناج دیکھنے نہ ملتا تھا ،ظاہر ہےکہ ایسی صورت میں مجھے اپنے اعزا سے بہت محبت تھی مگر ہائے رہے کہ زوجہ نے ایک ایک کر کے سب کو باہر کا راستہ دکھا دیا،چھوٹا بھائی بہت تنگدستی کے وقت پیدا ہوا،عید اور بقرعید پر میں اسے بازار روتا ہوا گھما لاتا تھا کہ ہماری اوقات تو کھانے کی نہیں تھی اسکے لئیے کپڑے کہان سے لاتا؟وہ بیمار ہوتا تو میں بھی روتا وہ بھی روتا دوا کے لیئے پیسے نہیں رہتے تھے میں ہمیشہ پریشان رہتا تھا کہ اگر کسی طرف سے بولوں تو مسئلہ!! خاموشی ہی میں عافیت سمجھتا رہا مگر ایک روز صبر ختم ہو گیا اور میں نے زوجہ کے بھائی کو گھر بلایا اور معاملات رکھے اور کہا کے اسے لے جاؤ معاملات خراب ہیں اس وقت میرے چھوٹے بھائی نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور میرے ہم زلف بہت حیران رہے کہنے لگے کہ ہم تو خوش فہمی میں تھے کہ دونوں کی اچھی جمتی ہے اس وقت میں نے ان سے کہا کہ میں ہمیشہ اپنے معاملات کو جس نے ہماری شادی لگائی تھی اسے بلا کر حل کر لیتا تھا، خیر وہ چلے گئے، کچھ دنوں کے بعد چھوٹے بھائی کے لئے لڑکی دیکھنا شروع کی گئی جسمیں میری زوجہ بھی شامل رہتی مگر تقریباً ہر جگہ یہ کہہ دیتی کہ مکان میرا اور میرے شوہر اور اسکے ابو کا ہے، مجھے برا لگتا کہ یہ بات کوئی کرنے کی تو ہے نہیں،اکثر اوقات میری زوجہ میرے بھائی،بہن ووالدین کی بے عزتی کر جاتی یہاں پر ایک ہلکی سی بات اور بتانا مناسب ہے کہ ہمارے والد صاحب پہلے ہمیشہ شراب پیا کرتے تھے،والدہ محترمہ جو اب ایک تقریباً پاگل جیسی رہتی ہیں وہ،بڑی بہن، اور بڑا بھائی سب ملکر بمشکل گھر چلاتے تھے،آج لوگ کہتے ہیں ہمارے گھر میں فاقے ہیں مگر میں اس گھرانے سے ہوں کہ ہفتوں ہمارے گھر چولہا نہیں جلا کرتا تھا،بے پناہ غریبی تھی اس عالم میں بڑی بہن اور والدہ دن رات چرخا بھرتیں،بڑا بھائی رات میں پاور لوم چلاتا اور دن میں کالج جاتا،اتنی کسمپرسی کے عالم میں ہم آگے آئے ظاہر ہے کہ زوجہ کیا کوئی بھی مجھے اگر میرے بزرگوں کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو میری قوت برداشت ختم ہو جاتی ہے،میں خاموش رہتایا یوں کہنا چاہئے کہ برداشت کرتا،میرے بھائی کی شادی ہوگئی اور گھر کے ماحول میں گرمی بڑھ گئی والد اور والدہ ہمیشہ بھائی کی طرفداری کرنے لگے اس معاملے سے اکتا کر میں نے فیصلہ کیا کہ بھائی کو الگ کر دیا جائے اور والد صاحب سے بات کی وہ ہرگز تیار نہیں تھے مگر مجھے مناسب یہی لگ رہا تھا کہ اس طرح سے بھائی کچھ سدھر جائے گا، مجھے اپنے چھوٹے بھائی سے بہت محبت ہے کچھ وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتہائی غریبی کے وقت اسکی پیدائش ہوئی تھی مجھے یاد ہے کہ میں اپنے بھائی کو گود میں لے کر گھوما کرتا تھا جب وہ بیمار ہوتا کیوں کہ دوا کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے گھر میں تو فاقوں کی نوبت رہتی تھی تو دوا دارو تو بہت دور کی بات تھی،کبھی عید پر وہ کوئی فرمائش کرتا تھا میں صرف اسے گود میں لے جاتا اور آنکھوں میں حسرت لے کر واپس آجاتا جب اللہ تعالیٰ نے رزق کی بے پناہ فراوانی کی تو میں نے کوشش شروع کی کہ میرا بھائی بے چارہ اسے کبھی کوئی چیز میں دے نہیں سکا تو کیوں نہ اسے اب وہ سب دوں جن کے لئے یہ بہت رویا ہے تومیں نے اسے بہت چھوٹ دے دی نتیجہ ذرا برا ہوا وہ ضدی اور تھوڑا سا بگڑ گیابھائی کی محبت نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے الگ مکان بنا کردے دوں تا کہ وہ اب خود کفیل بن جائے اس لئے کہ میری زوجہ اسے برا بولتی اور میں مجبوراً سن لیتا تھا کچھ معاملات میں میں بھی اسے ڈانٹ پلاتا،بحرا لحال کافی حجت اور تکرار کے بعد(جسکی پوری ذمہ دار میری زوجہ تھی) میں نے الگ مکان بنو ا کر دے دیا اس میں بھی بیوی سے قرض لیا پھرسے نام کے معاملے میں بیوی نے وہی حرکت کی خود کا اور انکے والد کا نام لکھوایا مجھ سے کہا بھی کہ اپنا نام بھی ڈالو تو میری اپنی سوچ یہ تھی کیا میرا کیا میری بیوی کا ایک ہی بات ہے،میں نے پھر اعتراض کیا دو جواب ملا ایک انہوں نے پیسے دیے ہیں اسکی گیارنٹی کا اور دوسرا کہ نام بدلوا کر لکھ دیا جائے گا۔مگر وہ دن آج تک نہیں آیا،کہ مکان کے معاملات کو حل کر لیا جائے۔اس بیچ میں نے محسوس کیا کہ یہ مکان ہی اصل جھگڑے کی جڑ ہے تو میں نے مکان فروخت کرنے کا ارادہ کیا نتیجہ گالیاں سننے کو ملیں،میری زوجہ نے مجھے اپنی زبان اور حرکتوں سے ہمیشہ بہت پریشان کیا میں بہت پریشان رہنے لگا آخر میں نے اپنی ساس صاحبہ جو پیشے سے مدرس ہیں انہیں بیچ میں ڈالا اور مجھے حیرت ہوئی کہ ساس نے بیٹی کو سمجھانے کی بجائے مجھے ہی قصور وار گردانا میں ساس کی طرف سے نا مراد ہو گیا،اور مجھے اس بات کو سمجھنے میں ذرا سا بھی پس و پیش نہیں کہ میری ساس ایک بہت بڑی فتین عورت ہے،جھوٹ،مکاری اور دھوکے کے سارے ریکارڈ میری ساس اور بیوی نے توڑ دالے،بات بات پر وعدہ کرنا اور اپنے ہی وعدے سے پھر جانا میری ساس کے لئے بہت آسان ہے،ساس نے اس وقت کہا آئندہ مکان اور پیسوں کی بات نہیں آئے گی،مگر نتیجہ صفر رہا،بعد میں کئی مسائل میں یہی ہوا بات کچھ ہوئی،سسرال کی جانب سے وعدے ہوئے آئندہ ایسا ہماری طرف سے ایسی بات نہیں آئے گی،خیر ساس کی طرف سے ناامیدی کے بعدزوجہ سے بات کی کہ تمہارے پیسے لے لو اور مکان میرے نام کردو تو بولیں کہ جتنا ہم نے دیاتھا اس سے زائد دینا ہوگا اس لئے کہ اگر ہم کہیں اورمیری امی کا یہ پیسہ لگاتے تو پیسہ بڑھتا نا کہگھٹتا،اور ہم دونوں میں ہمیشہ کھٹ پٹ رہنے لگی،اور بھی بہت مسا ئل رہے گھر میں گندگی وغیرہ،گھر میں اور ہر کام میں گندگی تو گویا میری زوجہ کی خاصیت ہے،ان دس برسوں میں اکثر ایسا ہوا کہ ہفتوں میری اور زوجہ کی بات بند ر ہی پر میں نے کبھی بھی دونوں کے گھر والوں کو ظاہر نہیں ہونے دیا،ہمیشہ جس شخص نے ہماری شادی لگائی تھی اسے بلا کر معاملات وہیں ختم کر دیا،اس کا طعنہ میری ساس اور بیوی اور بہت سارے سسرال والوں کے خیر خواہ یہ دینے لگے کہ یہ سب پہلے کرنا تھا اتنے دن تک سو رہے تھے کیا؟ میں حیران ہوا کہ معاملات گھر کی گھر میں ختم کرنا میں اپنی خوبی سمجھ رہا تھا مگر وہ تو میری خامی نکل گئی،میری پریشانیاں بڑھتی جا رہی تھیں میں بہت روتا کہ میں نےاتنے سالوں نباہ کیا اسکا صلہ یہ مل رہا ہے کہ اتنے دنوں تک سو رہے تھے کیا؟کچھ کاروباری مسائل کی وجہ سے اور کچھ بیوی سے ناچاقی کی وجہ سے میں اپنی بیوی سے دور ہونے لگا، کچھ دنوں بعد میرے پاس ایک لڑکی کام کرنے آئی میں اسے گھر تک چھوڑ آتا اکثر اوقات،ایک مرتبہ اسے میں نے بازار سے چپل دلو ا دی، گھر میں کافی ہنگامہ ہوا،میں نے معافی مانگی کہ آئندہ ایسا نہ ہو گا، اور اسے کام سے نکال دیا،رمضان میں تراویح کی نماز میں جامع مسجد میں تھا میری بیوی کا بار بار فون آتا رہا بیچ میں فون میں میں نے واپس فون کیا کہ کیا بات ہے؟ تو فون کرنے پر اسنے کہا کہ اس لڑکی کے ساتھ کہاں گھوم رہے ہو میں نے انکار کیا مگر وہ اپنی بات پر قائم رہی،میرے دوسرے موبائل میں کال ریکارڈنگ تھی رات میں نے چیک کیا تو میری ساس صاحبہ اور زوجہ کی بات سنائی دی ساس نے خبر دی تھی کہ میں نے دوسرا نکاح کر لیا ہے، اور انتہائی غلط انداز میں زوجہ کو شوہر کے خلاف بھڑکاتی رہی،میں بہت غصے میں تھا مگر خاموش ہو گیا دو دن کے بعد میں نے اپنی بیوی کو موبائل دیا اور کہلوایا کہ آئندہ میرے فون سے بات مت کرنا میں نے تمہاری اور تمہاری امی کی ساری بات سن لی ہے،بجائے پشیمان ہونے کے زوجہ اور بھی شیر ہو گئی،اور بھی بہت ساری باتیں ہوئی دوری بڑھتی چلی گئی سابقہ مسائل کی طرح میں نے بہت سارے لوگوں کو جمع کیا مگر کوئی حل نکل نہیں سکا، اسی رمضان میں میری اسی مسئلے میں ساس سے کافی حجت ہوئی میں نے ساس کو بہت باتیں سنائیں،وہ لوگ آئے آئندہ ان کی طرف سے ایسی ہوائی بات نہیں کی جاے گی ایسا کہہ کر چلے گئے مگر ہمارے معاملات جوں کی توں برقرار رہے،میں نے ہمیشہ خود سے کوشش کرکے زوجہ سے بات شروع کی مگر آہ ہمیشہ نا کام رہتا مجھے بیوی کی طرف سے ہمیشہ ذہنی اذیت کا سامنا رہا،میں اکثر اوقات رات دیر سے گھر آنے لگا،اب کام کر کے گھر جانا ہے یہ سوچ کر ہی وحشت ہونے لگی،ایک روز میرے ہاسپیٹل کا کام کرنے والا میری دوسری لیب پر گیا وہاں سے اس نے اس لڑکی سے گاڑی مانگی کہ اسے میرے پاس آنا تھا میری زوجہ گھر میں نہیں تھی،وہ دونوں آئے کچھ دیر بیٹھ کر چلے گئے،میری بہن نے دیکھا تو والد کو بھیجا میں نے والد صاحب کو بتایا عقیل آیا ہے،بات ختم ہو گئی کچھ روز بعد میری زوجہ کو اس کی خبر لگی تو پھر ہنگامہ ہو گیا،میں نے اس سے کہا میں عقیل کو بلوا دیتا ہوں اس سے پوچھ لو،مگر وہ تو عقیل کو بھی گالیاں دینے لگی جو کہ اسکی عادت ہے ان گالیوں پر میں ہمیشہ اپنی زوجہ سے کہتا کہ حرام مال پیٹ میں جاتا ہے تب ہی ایسی گالیاں منہ سے نکلتی ہیں اور میں نے کہا عام طور سے ٹیچر حضرات کی پیمینٹ حرام ہوتی ہے ورنہ تجربہ کر کے دیکھ لو پرائمری اساتذہ کے بچے انتہائی گستاخ ہوتے ہیں،میر ایسا کہنا اسے بہت برا لگا اس نے کہا تمہارا بھائی بھی ٹیچر ہے میں نے کہا پوچھ لو میں اس کو بھی بولتا ہوں،اس دوران میری بیوی کا ہمیشہ کا معمول تھا میری جاسوسی کرنا اور کروانا اس میں کوئی کمی نہیں آ ئی،ایک طرف زوجہ میری جاسوسی کرواتی تو دوسری طرف ساس ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی رہی،بلا شبہ اس دوران میں نے زچ ہو کر کہا کہ تم لوگ جو شک کرتے ہو وہ میں اب کروں گا،اور میرا ذہن جو کبھی اس قسم کی بات سوچتا نہیں تھا وہ سب ذہن میں آنے لگا،میں ہمیشہ استغفار کرتا کہ اللہ یہ برائی کی بات کیوں میرے ذہن میں آرہی ہے تب میں نے فیصلہ کیا کہ برائی کرنے سے بہتر ہے میں نکاح کرلوں،مگر اپنی بات پر پکا نہیں تھا صرف برائی نہ ہو اسلئے نکاح کا سوچا تھا،اس دوران مجھ پر بیوی نے زنا کا الزام لگایا اور حمل ساقط کرنے کا الزام لگایا، میں نے انکار کیا صفائی پیش کی،اس وقت کے کچھ پہلے زوجہ انتہا بد تمیزی کرنے لگی تو تڑاخ سے بات کرتی،اور انتہائی بھونڈی گالی بھی مجھے دیتی،اسکے بعد میرے والد کو اسکے گھر لے گئی کہ بہن بیمار ہے اسے دیکھنے جانا ہے اور راستے میں پھر میرے والد کے سامنے جھوپڑ پٹی کے انداز میں مجھے گالی دی،میرے سالے نے الزام لگایا کہ میں نے نکاح ثانی کر لیا ہے اور فلاں جگہ اسے لے کر رہتا ہوں،میں نے رات میں اسے بلوایا الزام ثابت کرنے کی بات کی اور اپنی زوجہ کے سابقہ معاملات رکھے کہ مجھ پر تو الزام ہے آپکی بہن تو ملزم ہے،بات بڑھ گئی میں نے اپنے سالے پر ہاتھ اٹھا لیا دو تین دن بعد وہ لوگ آئے دو تین دن کا بول کر زوجہ کو لے کر چلے گئے،میں نے کہا بھی کہ اس سے پہلے بات ہوئی تھی کہ اس قسم کی ہوائی باتیں تمہاری طرف سے نہیں آئے گی وہ نا مانے لے گئے،دو ڈھائی مہینہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتا رہا اس بیچ ان کی طرف سے میرے رشتہ داروں کو ڈالاگیاجو شخص بات کرنے آیا اس نے دو گھنٹہ تقریر کی،دو گھنٹہ مجھ پر بے پناہ الزامات لگائے گئے میرے بزرگوں کے سامنے مجھے رسوا کیا گیا، (خصوصاً میرے ایک ایسے بزرگ جنہوں نے میری تربیت کی مجھے پڑھایا لکھایا،اور مجھ پر بہت شفیق رہے)میں نے بیچ میں اسکی بات کاٹی اور صرف پانچ منٹ ہی میں نے کہا وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا میرے بزرگوں نے اسے روکا کہ تونے اپنی بات کہہ دی اب اس لڑکے کی سن مگر وہ رکا نہیں بھاگ گیا اور میری سسرال میں جاکر یہ بات بتائی کہ میں نے شادی کے کچھ پہلے کی بات اٹھائی تھی اس لئے وہ واپس آگیا جب کہ ایسا نہیں تھا بلا شبہ میں نے وہ بات بھی اٹھائی تھی (جس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے بھی تو ایسی گندی باتیں لوگوں نے بتائی تھیں مگر میں نے تو کبھی اس بات پر کچھ نہیں کہاتمکیسے کہہ رہے ہو؟) جس بات پر وہ بھاگا تھا اسکی اپنی منہ بولی بہن عرف میری ساس کی بات جب میں نے کہنا شروع کیں اور انکی غلطیاں بتائیں اور میری اپنی ساس کو میں نے فتنہ کہا اور یہ کہا کہ اگر کہیں جھگڑا نہ ہو تب انہیں وہاں لے جاؤ وہاں فساد کھڑا ہو جائے گاتب وہ بھاگا،خیر اللہ کے یہاں اسے بھی جانا ہے مجھے بھی، بات اور بڑھ گئی،معاملات اور بگڑ گئے، دو تین روز کے بعد میری زوجہ کا ممیرا بھائی میرے پاس آیا صلح صفائی کی بات کی،میں نے کہا کہ جتنی بات پیچھے جائے گی اتنی بڑھے گی، اور آئندہ کا کیا ہو گا اسکا جواب مجھے چاہئے تو وہ بولا کہ میں اپنی بہن کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں (مگر وہ بھی اب اپنی ذمہ داری سے بھاگ گیا ہے)خیر وہ مجھے راضی کر گیا کہ میں لا کر چھوڑ جاتا ہوں اب اگر تم میں کچھ معاملات ہوں تو مجھے بلانا،کچھ دن بعد ہی گرمی شروع ہو گئی میں نے اس کے ممیرے بھائی کو بلوایا نتیجہ صفر رہا،کچھ دنوں بعد حضرت مولانا قمر الزماں دامت برکاتہم سے مولانا عبدالماجد کی وساطت سے میری بات ہوئی حضرت کا حکم سر آنکھوں پر،حضرت نے فرمایا پراناقصہ بھول جاؤ نئے سرے سے زوجہ سے بات کرو اور معاملات کو درست کر لو، میں نے کوشش شروع کی اور سب سے پہلے زوجہ سے بات کی اور جس لڑکی کے ساتھ مجھے بدنام کیا جاتا رہا اس سے نکاح کا بھی ارادہ کر لیا اور حضرت کے حکم کے مطابق سب سے معافی مانگنے کا ارادہ کر لیا شروعات معافی کی زوجہ سے کر لی نتیجہ شاطر ہونے کا طعنہ ملا،اور میں نے نکاح کر لیا زوجہ کو اس سے بے خبر رکھا کہ وقت اچھا دیکھ کر بتا دوں گا مگر اسے پتا چل گیا اور زوجہ نے مجھے بازاری انداز میں گالیاں دینا شروع کر دیں،میں نے بہت سمجھایا مگر نہیں مانیں،بچوں کو میری ساس،سالی،زوجہ اور سالی کی لڑکی ورغلانے لگے،میں نے زوجہ کو سمجھایا کہ یہ بار بار کے مسئلے بہتر نہیں ہے اور تم کو شرم آنا چاہئے اس طرح ستاتے ہوئے تم ہر چیز اب مجھ سے پوچھ کر کرو گی اور تمہارا میرا حساب بھی صاف کر لوکہ یہ سب اچھا نہیں ہے تو وہ مجھے بولی میں اپنا حساب قبر میں بھگت لوں گی،میں خاموش ہو گیا،کہ اب کوئی چارہ نہ تھا جو اتنا بے باک ہو کہ شرع کے خلاف بولنے کرنے پر اسے کوئی وحشت نہ ہو اس سے اب بات کرنا بھی بیکار تھا میں اب تک خاموش ہوں، ان دس سالوں میں زوجہ نے کبھی مجھ سے کسی کام کی اجازت نہیں لی ہمیشہ خبر دی یا حکم دیا، مثلاً میں امی کے یہاں جا رہی ہوں،اس طرح میں نے جب معاملات صاف کرنے کی کوشش کی ہر معاملے میں مجھے طعنے سننے ملنے لگے،گالیاں گندی گندی آج بھی اس کی زبان پر رہتی ہے،آج بھی مجھ سے بلا اجازت سارے کام کرتی ہے،ماں کے یہاں جانا منع کیا(حضرت مولانا مفتی یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب آپ کے مسائل اور ان کا حل میں لکھا ہے کہ اگر فتنے کا خوف ہو تو زوجہ کو اس کے میکے جانے سے روکا جا سکتا ہے) تو بغیر اجازت میں تو جاؤں گی ایسا کہتی ہے وغیرہ میں نے ساری اب تک کی زندگی میں صرف نباہ کی کوشش کی اللہ کا احسان ہے کہ ہر وقت اپنے معاملات میں شریعت کو مقدم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا پھر بھی خطا کا ہو جانا کوئی مشکل نہیں ہے،(ڈر بھی ہے کہ وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ)میں نے انتہائی مختصر انداز میں بات آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں نے ہر ممکن سعی کی ہے کہ مختصر مگر جامع بات لکھ سکوں، اور اب میری زوجہ نے اس قسم کا سوال مجھے دیا ہے،حالانکہ بہت سے سوال مجھے بھی کرنا چاہئے مگر میں نے کچھ صورت حال اس مسئلہ کی لکھی ہے،(در ج صورت میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لئے میں اپنی ساس کو پورا ذمہ دار مانتا ہوں اور شیطانی کام کرنے والا کہتا ہوں) اللہ تعالیٰ مجھے حق پر کاربند کرے،نا حق سے ہمیشہ دور رکھے آمین، صورت مسؤلہ میں گذارش ہے کہ جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔(اور بہت ممکن ہے کہ میری زوجہ کو یہ بات نا گوار گذرے کہ صرف جو سوال میں نے دیا تھا اسی کا جواب لانا تھا یہ سب کیوں لکھا؟تو آپ سے گذارش ہے کیا یہ غلط ہے کہ میں نے مختصراً وہ چیزیں آپ کے سامنے رکھیں ہیں کہ سوال کے پہلو کو اور پس منظر کو واضح کیا جائے۔) المستفتی خاکپائے علمائے دیوبند کثر اللہ جما عتہم ساجد افضال عفی عنہ

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو شرعا ان تمام بیویوں میں برابری کرنا لازم ہے، اگر کوئی شخص برابری نہیں کرتا تو ازروئے حدیث قیامت کے دن یہ شخص اس حال میں آئیگا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی، نیز اللہ رب العزّت نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہی اس شرط کے ساتھ مشروط رکھی کہ سب کے درمیان مساوات قائم رکھی جائے،اگر کسی کو یہ خدشہ ہو کہ وہ برابری نہیں کرسکے گا تو اس کو دوسری شادی کی اجازت بھی نہیں، البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برابری کرنے کا یہ حکم ان امور میں ہے جو انسان کے اختیار میں ہوں،جو چیزیں غیراختیاری ہیں ان میں برابری کا انسان پابند نہیں،چنانچہ قلبی میلان، مباشرت اور ازدواجی تعلقات کو ایک جیسا انجام دینا ایک غیراختیاری عمل ہے جس میں برابری کا شوہر مکلّف نہیں، اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی شوہر کی ایک بیوی سے تو اولاد ہو اور دوسری بیوی کی اجازت سے ایسی کوئی تدبیر اختیار کرتا ہے کہ اس سے اولاد نہ ہو تو شرعا یہ شوہر برابری نہ کرنے کا مرتکب نہیں ٹھیگا، نہ ہی اس کو ملامت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مجبور کہ دونوں بیویوں سے سلسلہ ولادت جاری رکھے۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143510200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں