بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیثِ وعائین کی تشریح


سوال

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کا علم سیکھا اس کی تشریح چاہیے؟ 

جواب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن یاد کیےہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا گلادبا دیا جائےگا۔

تشریح:

اس حدیث میں علم کی دو سری نوع سے متعلق حضرات علماء کرام  کے مختلف اقوال ہیں:

1- علم کے دوسرے برتن، یعنی: علم کی دوسری نوع سے مراد  وہ احادیث جن میں ظالم حکمرانوں کے نام،  ان کے حالات اور ان کے زمانوں کی تعیین تھی، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کبھی کبھار اس طرف اشارہ بھی  کیا کرتے تھے، مثلاً: فرماتے تھےــ"أعوذ بالله من رأس الستين وإمارة الصبيان" یعنی: میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ساٹھ کے اواخر اور لڑکوں کی امارت سےـ"ــ۔اس سے ان کا اشارہ  یزیدبن معاویہ کی خلافت کی طرف تھا؛ کیونکہ یزید ۶۰ھ ہجری میں خلیفہ بنا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول فرمائی اور ۵۹ھ  میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

2- بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس نوع ثانی میں ان فتنوں کا تذکرہ تھا جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد واقع ہوئے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، کعبۃ اللہ کا محاصرہ  وغیرہ۔۔۔

3- حضرت ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مہلب اور ابوالزناد رحمہما اللہ سے نقل کرتے ہیں:  جس کا حاصل یہ ہے کہ  اس نوع سے مراد وہ احادیث ہیں جو قیامت کی علامات سے متعلق ہیں۔ 

نیز وہ روایات بھی مراد ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فساد دین، تغییر احوال اور تضییع حقوق خداوندی کا ذکر ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "اس دین میں بگاڑ قریش کے چند بے وقوف لڑکوں کے ہاتھوں ہو گا" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان سفہاء قریش کا علم نام بنام تھا۔ اس حدیث سے اشتراط  ساعت کی روایات مراد لینے سے ممکن  ہےکسی کو اشکال ہو کہ اشتراط ساعت دوسرے صحابہ کو بھی معلوم تھیں اور انھوں نے ان کو بیان بھی کیا، لہذا ایسی روایات مراد لینا بعید ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ علامات قیامت بہت سی ایسی ہیں کہ عامۃ الناس کی عقول میں ان کے تحمل کی قوت نہیں ہوتی، البتہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان جیسے بہت سے حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا بھی دیا اور عامۃ الناس سے ان کو پوشیدہ بھی رکھا گیا۔

(ماخوذ از کشف الباری حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مرحوم ، کتاب العلم، ج: ۴، ص: ۴۶۵ و۴۶۶، ط: مکتبہ فاروقیہ کراچی)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا إسماعيل، قال: حدثني أخي، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة قال: "حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين: فأما أحدهما فبثثته، وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم".  

(صحیح البخاری، باب حفظ العلم، ج: 35، رقم الحدیث: 120، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)

عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

"والحاصل أنه أراد به نوعين من العلم، وأراد بالأول: الذي حفظه من السنن المذاعة لو كتبت لاحتمل أن يملأ منها وعاء. وبالثاني: ما كتمه من أخبار الفتن، كذلك. وقال ابن بطال: المراد من الوعاء الثاني أحاديث أشراط الساعة، وما عرف به النبي، عليه الصلاة والسلام، من فساد الدين على أيدي أغيلمة سفهاء من قريش، وكان أبو هريرة يقول: لو شئت أن أسميهم بأسمائهم، فخشي على نفسه فلم يصرح، وكذلك ينبغي لكل من أمر بمعروف إذ خاف على نفسه في التصريح أن يعرض، ولو كانت الأحاديث التي لم يحدث بها في الحلال والحرام ما وسعه كتمها بحكم الآية. ويقال: حمل الوعاء الثاني الذي لم ينبه على الأحاديث التي فيها تبيين أسامي أمراء الجور وأحوالهم ووذمهم، وقد كان أبو هريرة يكني عن بعضهم ولا يصرح به خوفا على نفسه منهم، كقوله: أعوذ بالله من رأس الستين وإمارة الصبيان، يشير بذلك إلى خلافة يزيد بن معاوية لأنها كانت سنة ستين من الهجرة، فاستجاب الله دعاء أبي هريرة، فمات قبلها بسنة".

(باب حفظ العلم ، ج: ۴، ص: ۱۸۴، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت) 

 شرح صحيح البخارى لابن بطال میں ہے:

 "وأما الآخر لو بثثته قطع هذا البلعوم - قال المهلب، وأبو الزناد: يعنى أنها كانت أحاديث أشراط الساعة، وما عرف به (صلى الله عليه وسلم) من فساد الدين، وتغيير الأحوال، والتضييع لحقوق الله تعالى، كقوله (صلى الله عليه وسلم) : تمت يكون فساد هذا الدين على يدى أغيلمة سفهاء من قريش -، وكان أبو هريرة يقول: لو شئت أن أسميهم بأسمائهم، فخشى على نفسه، فلم يُصَرِّح. وكذلك ينبغى لكل من أمر بمعروف إذا خاف على نفسه فى التصريح أن يُعَرِّض. ولو كانت الأحاديث التى لم يحدث بها من الحلال والحرام ما وَسِعَهُ تركها، لأنه قال: لولا آيتان فى كتاب الله ما حدثتكم، ثم يتلو: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى) [البقرة: 159] ".

(كتاب العلم، باب حفظ العلم، ج: 1، 194، ط:  مكتبة الرشد - السعودية، الرياض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں