بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جناب نبی کریم کے دستِ مبارک کے چھونے سے بکری کے تھنوں کے بھر جانے سے متعلق روایت کی تخریج


سوال

 سیرت کی کتابوں یہ ایک واقعہ ملتا ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور مکہ میں کافروں کے سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا ،اتفاق سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے! اگر تمہاری بکریوں کے تھنوں میں دودھ ہو تو ہمیں بھی دودھ پلاؤ، میں نے عرض کیا کہ میں ان بکریوں کا مالک نہیں ہو، بلکہ ان کا چرواہا ہونے کی حیثیت سے امین ہوں، میں بھلا بغیر مالک کی اجازت کے کس طرح ان بکریوں کا دودھ کسی کو پلا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہاری بکریوں میں کوئی بچہ بھی ہے میں نے کہا کہ ” جی ہاں ” آپ نے فرمایا اس بچے کو میرے پاس لاؤ۔ میں لے آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی  اللہ عنہ نے اس بچے کی ٹانگوں کو پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھن کو اپنا مقدس ہاتھ لگا دیا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا ، پھر ایک گہرے پتھر میں آپ نے اس کا دودھ دوہا، پہلے خود پیا پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پلایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھ کو بھی پلایا،  پھر آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن میں ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے تھن! تو سمٹ جا چنانچہ فوراً ہی اس کا تھن سمٹ کر خشک ہو گیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس معجزہ کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ آپ پر آسمان سے جو کلام نازل ہوا ہے ، مجھے بھی سکھائیے ۔آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ضرور سیکھو تمہارے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ میں نے آپ کی زبان مبارک سے سن کر قرآن مجید کی ستر سورتیں یاد کر لیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرے اسلام قبول کرنے میں اس معجزہ کو بہت بڑا دخل ہے۔ اس واقعے کی طرف کسی نے توجہ دلائی کہ اسے بیان نہیں کرنا چاہیے؟  یہ من گھڑت واقعہ ہے؟برائے مہربانی اس بارے کوئی مستند تحقیق ہو تو ارشاد فرمادیجیے۔

جواب

یہ واقعہ مسند  احمد میں اور دیگر کتب حدیث  میں موجود ہے، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کو امام احمد اور اور ابویعلی نے روایت  کیا ہے، اور دونوں کے راوی صحیح کی راوی ہیں، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی سیر اعلام النبلاء  میں اس واقعہ کی سند کو حسن کہا ہے۔ لہذا یہ واقعہ سند کے اعتبار سے صحیح ہے، اس کو  بیان کرنا جائز ہے۔

"عن زر بن حبيش، عن ابن مسعود، أنه قال: كنت غلاما يافعا أرعى غنما لعقبة بن أبي معيط، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رضي الله عنه، وقد فرا من المشركين، فقالا: " يا غلام، هل عندك من لبن تسقينا؟" قلت: إني مؤتمن، ولست ساقيكما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " هل عندك من جذعة لم ينز عليها الفحل؟ " قلت: نعم، فأتيتهما بها، فاعتقلها النبي صلى الله عليه وسلم ومسح الضرع، ودعا، فحفل الضرع، ثم أتاه أبو بكر رضي الله عنه بصخرة منقعرة، فاحتلب فيها، فشرب، وشرب أبو بكر، ثم شربت، ثم قال للضرع: " اقلص " فقلص، فأتيته بعد ذلك، فقلت: علمني من هذا القول؟ قال: " إنك غلام معلم "، قال: فأخذت من فيه سبعين سورة، لا ينازعني فيها أحد".

(أخرجه أحمد في مسنده (7/ 416، 417) برقم (4412)، ط.مؤسسة الرسالة،الطبعة الأولى:1421 هـ =2001 م)

"ترجمہ: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نو عمر لڑکا تھا،  عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا،  مشرکین کی اذاؤوں سے کہیں جاتے  ہوئے جناب  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ (راستے میں) میرے پاس سے گزرے،  تو فرمایا: ”اے لڑکے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے کہ ہمیں پلائے؟“ میں نے عرض کیا: میں اس پر امین ہوں، تمہیں نہیں پلا سکتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی ایسی  نو عمربکری تمہارے پاس ہے جس  کا نر جانور کے ساتھ ملاپ نہیں ہوا (یعنی: جس نے ابھی تک بچہ نہ جننا ہو؟“ میں ان کے پاس ایسی نو عمر بکری لے کر آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باندھا،اور  اس کے تھن ہاتھ پھیر کر دعا کی، تو تھن دودھ سے بھر گئے،  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک گہرا پتھر(مثل پیالہ) لے کر آئے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں دودھ دوہا ، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو نوش فرمایااورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے بھی  پیا، اور پھر میں نے پیا،  پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام تھن سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”سکڑ جاؤ“، چنانچہ وہ تھن دوبارہ سکڑ گئے، اس کے بعد   میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ! مجھے بھی اس کلام یعنی قرآن کریم  میں سے کچھ سکھا دیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”بے شک تم  ایسا لڑکا ہو  جس کو سکھایا جا سکتا ہے۔“چنانچہ میں نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی زبان مبارک سے سن کر قرآن مجید کی ستر سورتیں یاد کر لیں، جس میں مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں کرسکتا۔ "

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال : كنت غلاما يافعا، أرعى غنما لعقبة بن أبي معيط، فجاء النبي صلى الله عليه و سلم وأبو بكر، وقد فرا من المشركين، فقالا: " يا غلام، هل عندك من لبن تسقينا؟"، قلت: إني مؤتمن، ولست بساقيكما. رواه أحمد وأبو يعلى ورجالهما رجال الصحيح".

(مجمع الزوائد: باب تبليغ النبي صلى الله عليه و سلم ما أرسل به وصبره على ذلك  (6/ 12) برقم (9816)، ط. دار الفكر، بيروت - 1412 هـ)

سير اعلام النبلاء میں ہے:

"وقال عاصم، عن زر، عبد الله، قال: كنت غلاما يافعا في غنم لعقبة بن أبي معيط أرعاها، فأتى على رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبو بكر، فقال: "يا غلام هل عندك لبن"؟ قلت: نعم ولكن مؤتمن. قال: "فائتني بشاة لم ينز عليها الفحل". فأتيته بعناق جذعة، فاعتقلها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم دعا ومسح ضرعها حتى أنزلت، فاحتلب في صحفة، وسقى أبا بكر، وشرب بعده، ثم قال للضرع: "اقلص"، فقلص فعاد كما كان، ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: "علمني من هذا القول"، فمسح رأسي، وقال: "إنك غلام معلم"، فأخذت عنه سبعين سورة ما نازعنيها بشر. إسناده حسن قوي."

(سير أعلام النبلاء: فصل في معجزاته (2/ 210)، ط.  دار الحديث- القاهرة، الطبعة: 1427هـ= 2006م)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں