بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گستاخِ رسول ﷺ کی سزا کیا ہے ؟ اور اس کے نفاذ کے ذمہ داری کس پر ہے ؟


سوال

اگر کوئی شخص کسی مسلمان کے سامنے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کریں تو کیا اسے فوراً مار دینا چاہئے؟ یا اسے پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے؟

جواب

پاکستان  کے قانون کے آرٹیکل 295 C کے تحت گستاخِ رسول ﷺ کی سزا بطورِ حد قتل ہے، مسلمان اور کافر کی تفریق کے بغیر،  اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار  یا  شرعی  گواہوں  کی  گواہی  سے یہ  ثابت ہو جانے کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے، فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا بطورِ حد ہے،  لہٰذا توبہ کرنے سے بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔

تاہم یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس طرح کی سزاوٴں کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے؛ لہذ ا صورتِ مسئولہ میں ایک عام آدمی کے لیے درست نہیں کہ اس کو فوراً قتل کردے،البتہ پولیس یا دیگر کوئی ذریعہ اختیار کرسکتا ہے،جس سے قانونی ادارے اس پر قانون کے تحت حد جاری کرسکیں۔

کتاب الخراج لأبي يوسف میں ہے:

"من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم عياذا بالله.

قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذبه أو عابه أو تنقصه؛ فقد كفر بالله وبانت منه زوجته؛ فإن تاب وإلا قتل. وكذلك المرأة؛ إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقل المرأة وتجبر على الإسلام."

(فصل فی حکم المرتد عن الإسلام والزنادقه، ص:199، ط:المکتب الأزهریة)

النتف في الفتاوى میں ہے:

"والسابع من سب رسول الله الله صلى الله عليه وسلم فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويعفل به ما يفعل بالمرتد."

(كتاب المرتد والبغی،ساب الرسول، ج:2، ص:294، ط:مؤسسة الرسالة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں