بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی لونڈی سے ہمبستری کی ہے اور اس کے بارے میں آپﷺ کی کسی بیوی نے اعترض کیا ہے ؟


سوال

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی لونڈی سے وطی کی ہے یا نہیں؟ اگر کی ہے تو بمع قرآن اور حدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں اور اس کے بارے میں آپﷺ کی کسی بیوی نے کوئی اعتراض کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت کی تعلیم ہے کہ ایسے سوالات سے گریز کیا جائے جس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ جب آپ ﷺسے  روح کے متعلق سوال کیا گیا تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ ‌الرُّوحِ قُلِ ‌الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ [الإسراء: 85] 

ترجمہ :  "  اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو،  کہہ دے روح ہے میرے رب کے حکم سےاور تم کو علم دیا ہے تھوڑا سا(خبر دی ہے تھوڑی سی)"(ترجمہ شیخ الہند)

اسی طرح جب چاند کے  متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا :

﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ ‌مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾ [البقرة: 189]

ترجمہ : " تجھ سے پوچھتے ہیں حال نئے چاند کا کہدے کہ یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے واسطے اور حج کے واسطے " (ترجمہ شیخ الہند) 

چنانچہ جواب میں سوال کا رخ عمل کی طرف کیا گیا،اور ایک اور جگہ تنبیہ کی کہ      :

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ ‌إِنْ ‌تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ [المائدة: 101]

ترجمہ :" اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں  تو تم کو بری  لگیں"(ترجمہ شیخ الہند)

لہذا فقظ معلومات بڑھانے کے لیے ایسے سوالات سے گریز کیا جائے۔

احادیث اور سیرت کی معتبر کتابوں میں  لکھا ہے کہ آپﷺ  کی ملکیت میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا  تھیں  جو آپ ﷺ کو   مصر کے بادشاہ   مقوقس نے بطور  ہدیہ بھیجی تھیں ،جن سے آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی،البتہ یہ بات کہ  آپ ﷺ کی کسی بیوی نے اعتراض کیا ہو  ،اس کے متعلق اتنی  بات ملتی ہے کہ  سورۃ تحریم کی ابتدائی  آیات کی شانِ نزول  کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں  ایک واقعہ لکھا ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ آپﷺ نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری میں   ان  كے بستر پر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہاسےصحبت کی، جس پر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہانے ناراضی کا اظہار کیا، لیکن  ناراضی  کا سبب باندی سے صحبت کرنا نہیں تھا؛  کیوں کہ خود  اللہ تعالی نے آپﷺ کو اس کی اجازت دی تھی،قران مجید میں ہے :

(يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِنَّآ أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوٰجَكَ ٱلّٰتِيٓ ءَاتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَيْكَ)  [الأحزاب: 50]          

ترجمہ :"اے نبیﷺ ہم نے آپ کے لیے آپ کی یہ بیبیاں جن کو آپ ان کا مہر دے چکے ہیں حلال کی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو تمہاری مملوکہ ہیں جو اللہ تعالی نے غنیمت میں آپ کو دلوادی ہیں۔"(بیان القران)

 بلکہ ان کی باری  میں ان کےبستر پر صحبت کرنا تھی؛  لہذا یہ بات کہ آپ ﷺ کے کسی باندی سے صحبت کرنے پر کسی زوجہ نے اعتراض کیا ہو درست نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ  مذکورہ واقعے  کے مقابلے میں  ابن کثیر ؒ نے صحیح بخاری وصحیح مسلم سے ان ہی آیات کے متعلق  دوسرا شانِ نزول شہد کے واقعہ  کانقل کیا ہے  اور اسی طرف ان کا رجحان معلوم ہوتا ہے،    جس کی تفصیل تفسیر اور احادیث کی کتابوں میں درج ہے۔

البدایہ والنهایہ میں ہے:

"وقال أبو نعيم: حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو بكر بن أبي عاصم، حدثنا محمد بن يحيى الباهلي، حدثنا يعقوب بن محمد، عن رجل سماه عن الليث بن سعد، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة قالت: «أهدى ملك من بطارقة الروم يقال له: المقوقس جارية قبطية من بنات الملوك يقال لها مارية إلى النبي صلى الله عليه وسلم. وأهدى معها ابن عم لها شابا، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم منها ذات يوم مدخل خلوة فأصابها فحملت بإبراهيم.......قال الواقدي: ماتت مارية في المحرم سنة ست عشرة، فصلى عليها."

(فصل في ذكر سراريه عليه السلام،ج5،ص304،ط:مطبعة السعادة)

تفسیر ابن کثیر میں ہے :

"اختلف في سبب نزول صدر هذه السورة فقيل: نزلت في شأن مارية وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حرمها، فنزل قوله تعالى: يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضات أزواجك الآية.......وقال ابن جرير  : حدثنا سعيد بن يحيى، حدثنا أبي، حدثنا محمد بن إسحاق عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس قال: قلت لعمر بن الخطاب: من المرأتان؟ قال: عائشة وحفصة. وكان بدء الحديث في شأن أم إبراهيم مارية القبطية أصابها النبي صلى الله عليه وسلم في بيت حفصة في نوبتها، فوجدت حفصة: فقالت: يا نبي الله لقد جئت إلي شيئا ما جئت إلى أحد من أزواجك في يومي وفي دوري وعلى فراشي قال: «ألا ترضين أن أحرمها فلا أقربها» قالت: بلى فحرمها وقال لها «لا تذكري ذلك لأحد» فذكرته لعائشة فأظهره الله عليه فأنزل الله تعالى: يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضات أزواجك الآيات كلها. فبلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفر عن يمينه وأصاب جاريته."

(سورة التحريم (66) : الآيات 1 الى 5،ج8،ص181،ط:دار الكتب العلمية)

و فیہ ایضاً :

"وقال ابن أبي حاتم حدثني أبو عبد الله الظهراني أنبأنا حفص بن عمر العدني أنبأنا الحكم بن أبان أنبأنا عكرمة عن ابن عباس قال: نزلت هذه الآية يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك في المرأة التي وهبت نفسها للنبي صلى الله عليه وسلم وهذا قول غريب، والصحيح أن ذلك كان في تحريمه العسل كما قال البخاري عند هذه الآية: حدثنا إبراهيم بن موسى أنبأنا هشام بن يوسف عن ابن جريج عن عطاء عن عبيد بن عمير عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يشرب عسلا عند زينب بنت جحش ويمكث عندها، فتواطأت أنا وحفصة على أيتنا دخل عليها فلتقل له: أكلت مغافير إني أجد منك ريح مغافير، قال: «لا ولكني كنت أشرب عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا» تبتغي مرضات أزواجك هكذا أورد هذا الحديث هاهنا بهذا اللفظ."

(سورة التحريم (66) : الآيات 1 الى 5،ج8،ص182،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں