کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے بتاریخ (15۔اپریل ،2021ء) کو یہاں دا رالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے فتوٰ ی لیا تھا ،جس میں میں نے اپنی زندگی میں جائیداد کی تقسیم کے بارے میں معلوم کیا تھا ،لیکن ابھی تک میں نے اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا عمل نہیں کیا تھا ،اور میں نے اپنی ایک بیٹی کے پاس بطور امانت کچھ نقد رقم اور زیورات جن کی مالیت تقریباً 6 لاکھ بنتی ہے رکھا تھا ،اب میں نےان اشیاء کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئی وہ انکار کررہی ہے ،لہٰذا مفتی صاحب یہ بتائیں کہ
1۔میری بیٹی کو اس رقم اور زیورات میں کیا حق بنتاہے؟ کیا اس کا یہ انکار درست ہے؟
2۔میری بیٹی نے جو نقد رقم میں اور زیورات میں بےایمانی کی ،اس بےایمانی کی وجہ سے اگر میں زندگی میں جائیداد تقسیم کروں یامرنے کے بعد میراث کامعاملہ ہو بہر دو صورت میری یہ بیٹی جائیداد میں حصہ دار ہوگی یا نہیں ؟
1۔ صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائل نے اپنی بیٹی کےپاس اپنے کچھ زیورات اورکچھ رقم بطور امانت رکھوائی تھی تو بیٹی کا اس مال میں کوئی حق نہیں ،امانت کاتقاضا یہ ہے کہ سائل کے مطالبہ پر بیٹی یہ مال واپس کردے ، نہ کرنے کی صورت میں سخت گناہ اور بے وفائی کی مرتکب ہورہی ہے۔
2۔واضح رہے کہ زندگی میں ہر شخص اپنےتمام مال و جائیداد کاخود مالک ہوتاہے اور زندگی میں اپنی جائیداد اور مملوکہ اشیاء میں جائزتصرف کرنے کا اختیار رکھتاہے ، چاہے خود استعمال کرے ،چاہے کسی کو ہبہ کرے ، تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیدادخوشی ورضا سےاپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ یہ تقسیم ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے ،لہٰذ ا صورت مسئولہ میں اگرسائل زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم كرے تو تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے جس بیٹی کے پاس سائل کی نقدی اور زیورات وغیرہ موجود ہیں اس نقدی اوردیگراشیاء کو اس کے حصے میں شمار کرے۔اور اگر سائل زندگی میں تقسیم نہیں کرتا تو اس کی وفات کے بعد میراث کی تقسیم کی صورت میں بیٹی کے پاس غصب کردہ رقم بھی ترکہ میں شمار ہوگی ،اب اگر بیٹی کا حصہ اور غصب کردہ رقم برابر ہو تو بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا،اگر غصب کردہ رقم بیٹی کے شرعی حصے سے زیادہ ہو تو بیٹی حصے سے زائد رقم کی مقروض ہوگی، اور یہ رقم دیگر ورثاء کو لوٹانی ہوگی ۔اور اگر غصب کردہ رقم بیٹی کے شرعی حصے سے کم ہو تو بیٹی اپنا حصہ پورا کرنے کے لیے مزیدرقم کی حقدار ہوگی، تاہم امانت میں خیانت کی وجہ سے بیٹی اپنے شرعی حصہ سے محروم نہیں ہوگی ۔
صحیح البخاری میں ہے:
"حدثنا سليمان أبو الربيع قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر قال: حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان".
(كتاب الإيمان ،باب علامة المنافق ،ج:1،ص:143،ط:البشرى)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية .. قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم".
(مشکوٰۃ المصابیح، ص:1،ج:261، باب العطایا، ط: قدیمی)
وفيه أيضا:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه."
(مشکوٰۃ المصابیح، ص:1،ج:266، باب الوصایا، ط: قدیمی)
الدر المختار میں ہے :
''ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.''
(الدر المختار مع رد المحتار ،کتاب الہبۃ ،ج5 ،ص696،ط:سعید )
تکملہ ردالمحتار میں ہے:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط".
(تکملة ردالمحتار، کتاب الدعوی، باب التحالف، ج:8،ص:116 ط:سعيد)
بدائع الصنائع ميں هے :
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى."
( کتاب الدعوی،فصل فی بیان حکم الملک والحق الثابت فی المحل ،ج6،ص 264،ط:دار الکتب العلمیہ)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308101002
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن