بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خون سے علاج کب جائز ہے؟


سوال

انسانی خون میں بعض کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جو زخم کو ٹھیک کرنے یا بال اگانے یا جسم کے اندر مختلف کاموں میں استعمال ہوتے ہیں،  چنانچہ مریض کا خون لے کر اس میں سے مختلف سیل نکال کراسی مریض کی جلد میں انجیکشن کی مدد سے لگائے جاتے ہیں،  جس سے زخم جلد ٹھیک ہوجاتے ہیں، بالوں کے اگنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے، آنکھوں کے حلقے کم ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ، اس میں بعض تو بیماریوں کو ٹھیک کرنے کے  لیے لگائے جاتے ہیں اور بعض ڈھلتی عمر کے اثرات کو دور کرنے  کے لیے۔

1۔اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کن صورتوں میں جائز ہے؟ 

2۔صرف چہرہ کی تروتازگی اور ڈھلتی عمر کے اثرات چھپانے کے  لیے بیوی خاوند کودکھانے کے لیے کرواسکتی ہے ؟

جواب

1۔ مذکورہ طریقہ کے مطابق مریض کا خون لے کر اس میں سے مختلف سیل نکال کرمریض کی جلد میں انجیکشن کی مدد سے لگانا اس صورت میں جائز ہوگا، جب مریض کی ہلاکت کا اندیشہ ہو   اور ماہر دین دار معالج  کے بقول اس  سےشفا  کا غالب گمان  ہو اور اس کے علاوہ کوئی دوسری  دوا اس مرض کے لیے موجود  نہ ہو،لیکن اس کے  علاوہ صرف زخم کے جلد ٹھیک ہونے کے لیے یا بالوں کے اگنے کی رفتار  کی تیزی وغیرہ  کے لیے ایسا کرنا  جائز نہیں۔

2۔ جائز  نہیں ہے۔

فتاوى هندية میں ہے:

"الانتفاع ‌بأجزاء ‌الآدمي ‌لم ‌يجز ‌قيل: ‌للنجاسة ‌و قيل: ‌للكرامة ‌هو ‌الصحيح، ‌كذا ‌في ‌جواهر ‌الأخلاطي."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات: 5 / 354، ط: رشیدیہ)

الدر المختار مع الرد میں ہے:

"اختلف ‌في ‌التداوي ‌بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان و عليه الفتوى."

 (كتاب الطهارة، باب المياه، فروع التداوي بالمحرم: 1 / 210، ط: سعيد)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

وفي النهاية أنه يجوز ‌التداوي ‌بالمحرم كالخمر والبول إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاء ولم يجد غيره من المباح ما يقوم مقامه والحرمة ترتفع للضرورة فلم يكن متداويا بالحرام فلم يتناوله حديث ابن مسعود - رضي الله عنه - أنه عليه السلام قال: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» أو يحمل أنه قاله في داء عرف له دواء غير المحرم، كذا في التبيين۔"

(كتاب الكراهية والاستحسان، و‌‌خصاء البهائم، وإنزاء الحمير على الخيل: 1 / 319، ط: دار إحياء الكتب العربية، بيروت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں