بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواجہ سرا کا مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا


سوال

میں ایک خواجہ  سرا ہوں اور جب بھی مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہوں ،لوگ مجھے عجیب نظروں سے گھورتے اور بار  بار دیکھتے  ہیں، جس کی وجہ سے مجھے نماز میں دشواری ہوتی ہے،کیا میں گھر میں نماز ادا کرسکتا ہوں ،اس کا کوئی  گناہ تو نہیں ہوگا؟

جواب

صورت مسؤلہ میں   سائل  میں  اگر مردوں  کی علامات غالب ہیں تو سائل مردوں کے حکم میں ہوگا ،اس صورت میں  سائل کے لیے عام   مردوں کی طرح مسجد میں ہی جماعت سے نماز پڑھنی  ہوگا ،بلا عذر شرعی محض لوگوں کے  عجیب نظروں  سے دیکھنے کی بناء پر   جماعت کی نماز چھوڑنا درست  نہیں ہوگا ،لیکن   اگر  سائل  میں عورتوں کی علامات غالب ہیں تو  سائل عورتوں کے حکم میں ہو گا،اس صورت میں عورتوں کی طرح گھر میں ہی نماز پڑھنی ہوگی ۔

اور اگر سائل کے اندر مرد و عورت دونوں کی علامتیں برابر ہیں تو  اس کیفیت کو فقہاء کرام نے خنثی مشکل سے تعبیرکیا ہے اور خنثی مشکل  مسجد میں نماز پڑھ تو سکتا ہے ،لیکن مردوں اور بچوں سے پیچھے  اور  عورتوں سے آگے درمیان میں  الگ صف  میں کھڑاہوگا اور دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھنی ہوگی  ۔

وفي البحر الرائق شرح كنز الدقائق :

"قال رحمه الله ( إن بلغ وخرجت له لحية أو وصل إلى النساء فرجل وكذا إذا احتلم من الذكر ) لأن هذه من علامة الذكر . قال رحمه الله ( وإن ظهر ثدي أو لبن أو أمكن وطؤه فامرأة ) لأن هذه من علامات النساء . قال رحمه الله ( وإن لم تظهر له علامة أو تعارضت فمشكل )."

(8/ 539الناشر : دار المعرفة بيروت)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية:

"لا خلاف بين الفقهاء في أنّه إذا اجتمع رجال ، وصبيان ، وخناثى ، ونساء ، في صلاة الجماعة ، تقدّم الرّجال ، ثمّ الصّبيان ، ثمّ الخناثى ، ثمّ النّساء ، ولو كان مع الإمام خنثى وحده ، فصرّح الحنابلة بأنّ الإمام يقفه عن يمينه ، لأنّه إن كان رجلاً ، فقد وقف في موقفه ، وإن كان امرأةً لم تبطل صلاتها بوقوفها مع الإمام ،كما لا تبطل بوقوفها مع الرّجال. والمشهور عند الحنفيّة أنّ محاذاته للرّجل مفسدة للصّلاة."

 (21/ 22ط:وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)

وفي الفتاوى الهندية:

"الأصل في الخنثى المشكل أن يؤخذ فيه بالأحوط والأوثق في أمور الدين وأن لا يحكم بثبوت حكم وقع الشك في ثبوته فإن وقف خلف الإمام قام بين صف الرجال والنساء فلا يتخلل الرجال حتى لا تفسد صلاتهم لاحتمال أنه امرأة ولا يتخلل النساء حتى لا تفسد صلاته لاحتمال أنه رجل، فإن قام في صف النساء يعيد صلاته احتياطا؛ لاحتمال أنه رجل وإن قام في صف الرجال فصلاته تامة ويعيد الذي عن يمينه وعن يساره ومن خلفه بحذائه صلاتهم احتياطا؛ لاحتمال أنه امرأة ويجلس في صلاته كجلوس المرأة، كذا في الكافي قال محمد - رحمه الله تعالى -: أحب إلي أن يصلي بقناع يريد به قبل البلوغ وإن صلى بغير قناع لا يؤمر بالإعادة إلا استحبابا، هذا إذا كان الخنثى مراهقا غير بالغ، أما إذا كان بالغا فإن بلغ بالسن ولم يظهر فيه شيء من علامة الرجال أو النساء لا تجزئه الصلاة بغير قناع إذا كان الخنثى حرا."

 (كتاب الخنثى ,الفصل الثاني في أحكام الخنثى,6/ 438ط:دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144308101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں