بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواب میں کسی سے ہمبستری کرنے کی وجہ سے گناہ کا حکم


سوال

میری کوئی سگی بہن نہیں تھی ، میری والدہ کو بیٹی کا بہت شوق تھا،  انہوں نے ایک 9سال کی یتیم بچی کو اپنی بیٹی بنا لیا ، وہ بچی اب 13 سال کی ہے ، وہ مجھے بھائی کہتی ہے،  اور میں اسے بہن کہتا ہوں،  اور اسے اپنی سگی بہن کی طرح سمجھتا ہوں،  مگر میں نے خواب میں اس بچی سے ہمبستری کی ہے،  میں بہت پریشان ہوں،  کیا میں کناہ گار ہوا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل مذکورہ خواب سے گناہ گار نہیں ہوا ہے؛کیوں کہ یہ غیر اختیاری عمل ہے، البتہ اگر  سائل کی والدہ نے اپنی اس  منہ بولی بیٹی کو   مدت رضاعت یعنی بچی کی  ڈھائی  سال میں دودھ نہیں پلایا ہے، تو یہ  سائل کی رضاعی بہن نہیں ہے، تو اس صورت میں یہ لڑکی اور سائل دونوں قطعی طور پر غیر محرم ہیں ، تو ان کو سائل سے پردہ کرنا لازم ہے، اور سائل کو بھی ان سے خلوت میں بیٹھنا درست نہیں ہے، یہ لڑکی سائل اور اس کے دیگر بھائی ، اسی طرح سائل کے والدکے حق میں اجنبیہ ہے، ایک ساتھ گھر میں رہتے ہوئے بہت ہی سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }."[الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:" اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔" (از بیان القرآن)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وظاهر الآية حرمة تعمد ‌دعوة ‌الإنسان لغير أبيه، ولعل ذلك فيما إذا كانت الدعوة على الوجه الذي كان في الجاهلية، وأما إذا لم تكن كذلك كما يقول الكبير للصغير على سبيل التحنن والشفقة يا ابني وكثيرا ما يقع ذلك فالظاهر عدم الحرمة".

(سورة الاحزاب، أية :6،ج:11،ص:147،ط:دارالكتب العلمية)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: {ادعوهم لآبائهم} في شأن زيد بن حارثة، وقد قتل في يوم مؤتة سنة ثمان، وأيضا ففي صحيح مسلم، من حديث أبي عوانة الوضاح بن عبد الله اليشكري، عن الجعد أبي عثمان البصري، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا بني". ورواه أبو داود والترمذي .وقوله: {فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} : أمر [الله] تعالى برد أنساب الأدعياء إلى آبائهم، إن عرفوا، فإن لم يعرفوا  آباءهم، فهم إخوانهم في الدين ومواليهم، أي: عوضا عما فاتهم من النسب".

(سورة الاحزاب 5،ج:6،ص:378،ط:دار الطيبة للنشر و التوزيع)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن سعد بن أبي وقاص و أبي بكرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ‌ادعى ‌إلى ‌غير ‌أبيه و هو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام."

(‌‌کتاب النکاح، ‌‌باب اللعان، الفصل الأول: ج:2، ص:990،  ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:"سعد اور ابوبکرہ  رضی اللہ عنھما فرماتے   ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کی طرف منسوب کرے، جب کہ وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔"

مرقات المفاتیح میں ہے:

 "وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا ترغبوا): أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه): أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر): أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر".

(کتاب الطلاق، باب اللعان ج:5 ،ص:2170 ،طدار الفكر)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ومن ادعى قومًا ليس له فيهم نسب فليتبوأ مقعده من النار".

(صحيح البخاري ،ج:4،ص:180،رقم3508،ط:دارالطوق النجاة

سنن ترمذی میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إن الله حرم من الرضاع ما حرم من النسب."

(كتاب الرضاع ،باب ما جاءيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب ،ج: 3 ص: 450، ط:مصطفي البابي الحلبي مصر)

الدر المختار میں ہے:

"هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون."

(‌‌‌‌كتاب النكاح، باب الرضاع، ج: 3، ص: 209، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو ‌المرضعة ‌خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة."

(كتاب الرضاع، ج:1، ص:343، ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسباً، ومصاهرةً (رضاعاً) إلا ما استثني في بابه.

(قوله: نسباً) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرةً، وقوله: رضاعاً تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:31،  ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں