بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواب کی تعبیر پوچھنے کا حکم


سوال

خواب دیکھنے کے بعد تعبیر پوچھنا ضروری ہے یا اس پر جب دل مطمئن ہو تو کافی ہے؟اور پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔

جواب

 خواب کی کئی قسمیں ہیں، جن میں سے بعض خواب حقائق کی آگاہی پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض خواب  اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے مومن کے لیے  بشارت ہوتے ہیں، اس لئے  اس کی تعبیر معلوم کرنی ہو تو کسی ماہر  معبّر(تعبیر بتانے والا) سے پوچھنا چاہیے کیوں کہ تعبیر بتانا باقاعدہ ایک فن ہے جس کے اصول مقرر ہیں، اور  فنِّ تعبیر سے واقفیت رکھنے والا اس فن کے اصول وقواعد کی روشنی میں وہ تعبیر بتاتا ہے جو اہل علم نے قرآن وسنت، لغت اور محاورات سے اخذ کیے ہیں، خود   آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کی جانب متوجہ ہوتے اور ان کے خواب کے متعلق دریافت فرماتے اور تعبیر بتلاتے، لہذا اچھے خواب کی تعبیر پوچھنی چاہیے، تاہم خواب دیکھنے کے بعد اگر دیکھنے والا پوچھتا نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

الجامع الکبیر (سنن الترمذي) میں ہے:

"حدثنا أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدي ولا نبي، قال: فشق ذلك على الناس فقال: لكن المبشرات. قالوا: يا رسول الله وما المبشرات؟ قال: رؤيا المسلم، وهي جزء من أجزاء النبوة. وفي الباب عن أبي هريرة، وحذيفة بن أسيد، وابن عباس، وأم كرز.

هذا حديث صحيح غريب من هذا الوجه من حديث المختار بن فلفل".

( ابواب الرؤيا، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، رقم الحدیث:2272، ج:4، ص:103، ط:دارالغرب الاسلامی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن سمرة بن جندب - رضي الله عنه - قال: «كان النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا صلى أقبل علينا بوجهه، فقال: " من رأى منكم الليلة رؤيا " قال: فإن رأى أحد قصها، فيقول ما شاء الله. فسألنا يوما فقال: " هل رأى منكم أحد رؤيا؟ " قلنا: لا. قال: " لكني رأيت الليلة رجلين أتياني، فأخذا بيدي، فأخرجاني إلى أرض مقدسة، فإذا رجل جالس....".

(قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا صلى) أي: صلاة الصبح وفرغ من أوراده (أقبل علينا بوجهه، فقال: " من رأى منكم الليلة رؤيا؟) على وزن فعلى بلا تنوين ويجوز تنوينه كما قرئ به في الشاذة: أفمن أسس بنيانه على تقوى من الله، وكذا روي منونا قوله في الحديث: ومن كانت هجرته لدنيا. (قال) أي: الراوي (فإن رأى أحد) أي: رؤيا صالحة (قصها، فيقول) أي: النبي - صلى الله عليه وسلم - في تعبيرها (ما شاء الله) أي: مما يلهمه في جنانه ويجريه على لسانه (فسألنا) أي: هو (يوما) أي: صباح يوم (فقال: هل رأى أحد منكم رؤيا؟) يعني: على عادته - صلى الله عليه وسلم - في هذا السؤال (قلنا: لا) إما لا صريحا أو سكوتا (قال: لكني رأيت الليلة) .

قال الطيبي، فإن قلت: ما معنى الاستدراك؟ قلت: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يهمه أن يرى أحدهم رؤيا يقصها، فلما سألهم ولم يحصل منهم تلك قال: أنتم ما رأيتم ما يهمني لكني رأيت الليلة (رجلين) أي: شخصين على صورة رجلين (أتياني، فأخذا بيدي) بتشديد الياء (فأخرجاني إلى أرض) بالتنوين (مقدسة) ، أي مطهرة مطيبة، قيل هي أرض الشام (فإذا رجل جالس ورجل) أي: وهناك رجل".

(کتاب الرؤیا، ج:7، ص:2925، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں