بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواب ہر ایک کے سامنے بیان کرنے کا حکم


سوال

1: کیا خواب ہر ایک کے سامنے بیان کرنا چاہیے؟

2:   اگر ہم کسی قریبی رشتہ دار جو وفات پاگیا ہو، اس کو خواب میں دیکھیں ، اس خواب کو اہلِ خانہ کے ساتھ بیان کرسکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1:اگر اپنی ذات سے متعلق کوئی اچھا خواب نظر آئے تو کسی سمجھ دار اور تعبیر کے فن میں مہارت رکھنے والے سے اس کا ذکر کیا جائے تاکہ وہ صحیح تعبیر بتلاسکے، ہر ایک کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے،جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن أبي رزين العقيلي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم رؤيا جزء من أربعين جزءا من النبوة وهي على رجل طائر ما لم يتحدث بها فإذا تحدث بها سقطت ، قال واحسبه قال ولا يحدث بها إلا لبييا أو حبيبا".

(سنن الترمذی، ابواب الرؤیا،تعبیر الرؤیا، رقم الحدیث:2877،  ج:4، ص:536، ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ:  حضرت ابورزین عقیلی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خواب نبوت کا چالیسواں حصّہ ہے،  اور یہ پرندے کے پاؤں پر ہوتا ہے  جب تک اس (خواب یا اس کی تعبیر ) کو  بیان نہ کیا جائے، جب  خواب دیکھنے والا (یا کوئی مؤمن ) اس (خواب یا اس کی تعبیر) کو بیان کردے تو خواب واقع ہوجاتا ہے۔  راوی کا کہنا ہے کہ میری دانست میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بھی فرمایا: خواب کسی عاقل و سمجھ دار  یا محبت رکھنے والے کے سامنے ہی بیان  کرو۔

اور اگر کوئی شخص برا یا ڈراؤنا خواب دیکھے تو جیسے ہی آنکھ کھلے بائیں طرف تھتکار کر "أَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شَرِّ هذِهِ الرُّؤْیَا" پڑھ لینا چاہیے، اور یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے، یہ شیطان کی طرف سے شرارت ہوتی ہے، جس کا مقصد انسان کو پریشان کرنا ہوتاہے ۔

2: اگر اپنے مرحوم رشتہ دارکو اچھی حالت میں دیکھا ہے تو بیان کرنا چاہیے اور اگر اچھی حالت میں نہیں دیکھا تو بیان نہیں کرنا چاہیے، ان کے لئے ایصال ثواب کیا جائے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي سلمة، قال: كنت أرى الرؤيا أعرى منها، غير أني لا أزمل، حتى لقيت أبا قتادة فذكرت ذلك له، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الرؤيا من الله، والحلم من الشيطان، فإذا حلم أحدكم حلما يكرهه فلينفث عن يساره ثلاثا، وليتعوذ بالله من شرها، فإنها لن تضره»".

(کتاب الرؤیا، رقم الحدیث:2261، ج:4، ص:1771، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں