بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خزيم نام رکھنا


سوال

مجھے بیٹا ہوا ہے میں اپنے بیٹےکا نام خزیم رکھنا چاہتا ہوں برائے مہربانی خزیم کے کیا معنیٰ ہے بتادیں!

جواب

عربوں میں قدیم زمانے سے خزیمہ  اور خزیم نام رکھنے کا رواج رہا ہے،  خزیمہ نام کے کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے، اسی طرح  خزيم نام کے بھی کئی افراد کا تذکرہ  حدیث کے رواة میں   ملتا ہے، لہذا خزيم نام رکھنا درست ہے، مذکورہ دونوں ناموں میں نسبت کا اعتبار ہوگا، معنی معتبر نہ ہوگا، کیوں کہ  جن ناموں کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے تبدیل نہیں فرمایا  وہ درست ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے لیے اپنے صاحبزادے کا نام  خزيم رکھنا  درست ہے۔

اسد الغابة في معرفة الصحابةمیں ہے:

"[٥٥٤٦- يزيد بن حمزة]

ب د ع: يزيد بن حمزة بن عوف وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم مع أبيه، وبايعه.

حديثه عند أولاده، روى هاشم بن يزيد بن حمزة، عن أبيه حمزة، قال: جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأنا معه وأخي خزيم فبايعناه.

أخرجه الثلاثة."

( باب الياء و الزاي، ٥ / ٤٥١، ط: دار الكتب العلمية )

سنن الترمذيمیں ہے:

" ١٦٢٥ - حدثنا أبو كريب، قال: حدثنا الحسين بن علي الجعفي، عن زائدة، عن الركين بن بن الربيع، عن أبيه، عن يسير بن عميلة، عن خزيم بن فاتك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أنفق نفقة في سبيل الله كتبت له بسبع مائة ضعف."

( أبواب فضائل الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في فضل النفقة في سبيل الله، ٣ / ٢٦٧، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فيض القدير شرح الجامع الصغيرمیں ہے:

" (عن خزيم) بضم الخاء وفتح الزاي المعجمتين بغير هاء (ابن فاتك) الأسدي شهد الحديبية وهو خزيم بن الأخزم بن شداد بن عمرو بن فاتك نسبة لجده ولم يصح أنه شهد بدرا قال الحاكم: صحيح وأقره الذهبي وقال الترمذي: حسن وإنما يعرف من حديث الركين بن الربيع."

( حرف الميم، ٦ / ٩٠، رقم الحديث: ٨٥٤٢، ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

تاج العروس من جواهر القاموس میں  ہے:

"(وكزبير: إبراهيم بن خزيم) صاحب عبد بن حميد الكشي. (ومحمد بن خزيم) شيخ لمحمد ابن محمد بن الباغندي: (الشاشيان: محدثان).

(وكشداد: محمد بن خضر بن خزام. أو) هو (ابن أبي خزام، سمع) أبا القاسم (البغوي)."

( خ ز م، ٣٢ / ٨٧، ط: دار الهداية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں