بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ختم خواجگان کے بعد کھانا کھلانا اور رقم دینا


سوال

ہمارے علاقے میں کچھ لوگ گول دائرے کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں، جس میں ایک امام صاحب ، یا  قاری صاحب/ حافظ صاحب تین مرتبہ سورہ یاسین (یس) اور تین مرتبہ سورہ تغابن بلند آواز سے پڑھتے ہیں،  باقی سب مجمع  سنتا ہے،  اس کے بعد دعا کی جاتی ہے ، اور چاول ، مٹھائی وغیرہ کھلائی جاتی ہے اور اس کو عرف میں (خواجہ ختم ) کہتے ہیں، اور یہ  ختم بعینہ قرآن خوانی کی طرح مختلف اغراض کیلئے کرایا جاتا ہے ۔

1 ۔  کیا مذکورہ ختم دلائل اربعہ کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟

2۔ اس میں شرکت کرنا ، اور اس کو بر قرار رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟

3۔  اس کا کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ 

4۔  اس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے دعوت دینے والے کاناراض ہونا کیسا ہے ؟

5۔  مذکورہ ختم کی کوئی متبادل صورت بھی ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح  رہے کہ قرآن مجید یا اس کی بعض سورتیں کسی جائز مقصد کے حصول  یا برکت کے لیے پڑھنا جائز عمل ہے، تاہم کسی مخصوص عمل کو سنت قرار دینے کے لیے اس کا ثبوت  قرآن و  سنت  سے ہونا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ طریقہ کو سنت نہ سمجھا جاتا ہو، اور اس کے لیے لوگوں کو جمع نہ کیا جاتا ہو، اور کھانا  اور مٹھائی کھلانے کو لازم نہ سمجھا جاتا ہے، اور نہ ہی پیسوں کا لین دین ہوتا ہو، تو انفرادی طور پر سورہ یٰس اور   سورہ تغابن پڑھنے کی اجازت ہوگی۔

1۔ مذکورہ طریقہ نصوص سے ثابت نہیں، البتہ  مجربات میں سے ہوسکتا ہے۔

2۔ مذکورہ طریقہ سنت سے ثابت نہیں،  لہذا اسے لازم سمجھنا،  درست نہیں، اجتماعی طور پر کرنے کے بجائے، انفرادی طور پر کرنے کی اجازت ہوگی۔

3۔مذکورہ ختم کے بعد اگر کوئی کھانا اپنی خوشی سے کھلادے، تو کھانے میں حرج نہیں، تاہم کھانا کھلانے کو لازمی سمجھنا، اور نہ کھلانے والے کو برا  سمجھا جاتا ہو، تو اس صورت میں کھانا نہیں کھانا چاہیئے۔

4۔ مذکورہ ختم نہ ہی فرض  یا واجب ہے، اور نہ ہی سنت یا مستحب ہے، لہذا ایسے ختم میں  اگر شرکت کو لازمی  سمجھا جاتا ہو، اور شرکت نہ کرنے والے سے ناراضگی کی جاتی ہو، تو اس صورت میں  شرکت کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ ایسا ختم واجب الترك ہوگا۔

5۔ انفرادی طور پر کیا جائے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

ایصال ثواب وغیرہ کے ختم قرآن پر شیرینی

"الاستفتاء ٨١٤ : یہاں کا رواج ہے لوگ علماء، حفاظ اور کچھ علوم دین جاننے والے لوگوں سے ختم قرآن، ختم خواجگان یا اس کے علاوہ اور کسی قسم کا ختم کراتے ہیں اور ایصال ثواب یا اپنے مقاصد کی دعائیں کراتے ہیں، پڑھنے والوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور کچھ روپے پیسے بھی دیتے ہیں، یہ رواج شرعا کیسا ہے؟

روپے پیسے لینا دینا کیسا ہے؟

اہل استطاعت اس قسم کے پیسے لے سکتے ہیں یا نہیں؟

نیز کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلياً:

ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک ختم کرا کے بطور معاوضہ کھانا کھلانا درست نہیں، اس سے ثواب نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے، علامہ شامی نے اس کی تصریح کی ہے۔

اہل استطاعت اور فقراء کسی کو بھی ایسا کھانا کھلانا اور پیسے لینا درست نہیں، مگر دیگر مقاصد مثلا مقدمات کی کامیابی کے لیے اگر ختم کرایا جائے اور کھانا کھلایا جائے یا پیسے دیئے جائیں تو یہ درست ہے، یہاں ختم سے مقصود تحصیل ثواب نہیں بلکہ دوسرا کام مقصود ہے۔ واللہ سبحانہ تعالی اعلم"

(باب البدعات والرسوم، ٣ / ٨٥، ط: فاروقیہ)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"ونقل العلامة الخلوتي في حاشية المنتهى الحنبلي عن شيخ الإسلام تقي الدين ما نصه: ولا يصح الاستئجار على القراءة وإهدائها إلى الميت؛ لأنه لم ينقل عن أحد من الأئمة الإذن في ذلك. وقد قال العلماء: إن القارئ إذا قرأ لأجل المال فلا ثواب له فأي شيء يهديه إلى الميت، وإنما يصل إلى الميت العمل الصالح، والاستئجار على مجرد التلاوة لم يقل به أحد من الأئمة، ... وما استدل به بعض المحشين على الجواز بحديث البخاري في اللديغ فهو خطأ؛ لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."

(باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على المعاصي، ٦ / ٥٧، ط: دار الفكر)

التعليق الممجد على موطأ محمد میں ہے:

"من ‌أصر ‌على مندوب والتزمه التزاما هجر ما عداه يأثم."

(ابواب الصلوۃ ،باب الانفتال فی الصلوۃ، ٢ / ٣٥،ط:دار القلم دمشق)

فيض القدير شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"وإذا كان ‌من ‌أصر ‌على مندوب ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان فكيف بمن أصر على بدعة فينبغي الأخذ بالرخصة الشرعية فإن الأخذ بالعزيمة في موضع الرخصة تنطع كمن ترك التيمم عند العجز عن استعمال الماء فيفضي به استعماله إلى حصول الضرر."

(حرف الھمزہ، ٢ / ٢٩٣،ط: المكتبة التجارية مصر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے"

"قال الطيبي: وفيه أن ‌من ‌أصر ‌على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(کتاب الصلوۃ باب الدعاء فی التشھد، ٣ / ٣١،  ط : المكتبة التجارية  مكة المكرمة)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ،ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."

(الباب الاول فی تعریف البدع وبیان معناھا، ١ / ٥١، ط: دار ابن الجوزی السعودية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144602102472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں