بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبے میں ومن یعصہما پڑھنے کا حکم


سوال

جمعہ کے خطبے میں من یطع اللہ ورسولہ کے بعد ومن یعصھما تثنیہ کے ساتھ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ممانعت ہے ۔ دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں ۔ جزاکم اللہ

جواب

”ومن يعص الله ورسوله“  پڑھنا چاہیئے،”یعصہما“ پڑھنا جائز تو ہے لیکن مناسب نہیں، اس لئے کہ  تثنیہ کی ضمیر سے پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، حضرت عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی  نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے  خطبہ پڑھا، اور  کہا: «من يطع اللہ ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فقد غوى» تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بہت برے خطیب ہو“۔  محدثین نے اس کی دو وجہات بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ خطبہ میں ضمیروں اور اشارات کی بجائے واضح کلام کرنا چاہیئے اور دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے ایک ہی ضمیر میں اللہ اور رسول کو جمع کرنا مقام و مرتبہ کے خلاف ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ” ومن یعصہما“ پڑھنا ثابت ہے، اس سلسلہ میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے علاوہ کے لیے منع ہے،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ و رسول کو ایک ہی ضمیر میں جمع کرنا اس سے دونوں کو برابری کا درجہ دینے کا وہم نہیں ہو سکتا اس لیے کہ آپ جس منصب و مقام پر فائز ہیں وہاں اس طرح کے وہم کی گنجائش ہی نہیں۔ جب کہ دوسرے اس وہم سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عدي بن حاتم، أن رجلا خطب عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: من يطع الله ورسوله، فقد رشد، ومن يعصهما، فقد غوى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌بئس ‌الخطيب أنت، قل: ومن يعص الله ورسوله ". قال ابن نمير: فقد غوي."

( الصحیح لمسلم،کتاب الجمعۃ،   باب تخفیف الصلوۃ والخطبۃ، رقم الحدیث:870)

سنن ابی داود میں ہے:

"عن ابن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا تشهد قال: «الحمد لله نستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، أرسله بالحق بشيرا ونذيرا بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه، ولا يضر الله شيئا»."

 (سنن ابي داود، ابواب الجمعة، ‌‌باب الرجل يخطب على قوس، رقم الحديث:1097)

حاشیۃ السندی علی سنن النسائی میں ہے:

"‌بئس ‌الخطيب أنت قالوا أنكر عليه التشريك في الضمير المقتضي لتوهم التسوية ورد بأنه ورد مثله في كلامه صلى الله تعالى عليه وسلم فالوجه أن التشريك في الضمير يخل بالتعظيم الواجب ويوهم التشريك بالنظر إلى بعض المتكلمين وبعض السامعين فيختلف حكمه بالنظر إلى المتكلمين والسامعين والله تعالى أعلم."

(حاشية السندي على سنن النسائي، كتاب النكاح، رقم:3279، 91/6،حلب)

فتح الباری میں ہے:

"وأما قوله للذي خطب فقال ومن يعصهما بئس الخطيب أنت فليس من هذا لأن المراد في الخطب الإيضاح وأما هنا فالمراد الإيجاز في اللفظ ليحفظ ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم حيث قاله في موضع آخر قال ومن يعصهما فلا يضر إلا نفسه واعترض بأن هذا الحديث إنما ورد أيضا في حديث خطبة النكاح وأجيب بأن المقصود في خطبة النكاح أيضا الإيجاز فلا نقض."

(فتح الباری لابن حجر، باب حلاوة الإيمان، 61/1، دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں