بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبہ جمعہ کے دوران سنتیں پڑھنے کا حکم


سوال

خطبہ جمعہ کے دوران سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خطبہ کو دھیان سے سننا شرعاً واجب ہے، اس دوران کھانا، پینا، بات کرنا یا کوئی اور کام انجام دینا شرعاً مکروہ ہے، اسی طرح خطبہ شروع ہوجانے کے بعد سنتیں یا نوافل پڑھنا ممنوع ہے، لہٰذا جمعہ کے دن کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد جلد پہنچ کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے "قبلیہ" سنتیں ادا کرلی جائیں اور اگر وقت کم ہو تو سنتوں کو نماز کے بعد کے لیے موخر کردیا جائے، لیکن اگر سنت یا نفل پہلے ہی شروع کردیں تھیں اور تیسری یا چوتھی رکعت کے دوران خطبہ شروع ہوگیا تواب  راجح یہ ہے کہ سنت مؤ کدہ تو پوری کرلے اور نفل میں دو رکعت پر سلام پھیرلے۔

البحر الرائق میں ہے:

"قال الولوالجی فی فتاویه إذا شرع فی الأربع قبل الجمعة ثم افتتح الخطبة أو الأربع قبل الظهر ثم أقیمت هل یقطع علی رأس الرکعتین تکلموا فیه والصحیح أنه یتم، ولا یقطع؛ لأنها بمنزلة صلاة واحدة واجبة".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجمعة، ج:2، ص:147، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(كذا الخطبة) فلا يأتي بما يفوت الاستماع ولو كتابة أو رد سلام (وإن صلى الخطيب على النبي - صلى الله عليه وسلم- إلا إذا قرأ-  {صلوا عليه} [الأحزاب: 56]- فيصلي المستمع سرا) بنفسه وينصت بلسانه عملا بأمري- {صلوا} [الأحزاب: 56]- {وأنصتوا} [الأعراف: 204]-

(قوله فلا يأتي بما يفوت الاستماع إلخ) سيأتي في باب الجمعة أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحاً".

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، ج:1، ص:545، ط:سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(إذا خرج الإمام) من الحجرة إن کان وإلا فقیامه للصعود شرح المجمع (فلا صلاة ولا کلام إلی تمامها) قال ابن عابدین : (قوله فلا صلاة) شمل السنة وتحیة المسجد".

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:،2، ص:158، ط:دارالفکر- بیروت)

وفیہ أیضاً:

"(‌وكل ‌ما ‌حرم في الصلاة ‌حرم فيها) أي في الخطبة خلاصة وغيرها فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن يستمع ويسكت (بلا فرق بين قريب وبعيد) في الأصح محيط ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي، وهو محتاج إليه والإنصات لحق الله - تعالىٰ.......(قوله بل يجب عليه أن يستمع) ظاهره أنه ‌يكره ‌الاشتغال بما يفوت السماع، وإن لم يكن كلاما".

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:159، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں