بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خنثی کی جنس کی تعیین کیسے کی جائے؟


سوال

میرا سوال  جنس کے اعضاء کو ہٹانے کے لیے سرجری کے بارے میں ہے،  میرے ناقص علم کے مطابق عام حالات میں یہ کروانا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی بچہ ایسا پیدا ہو کہ اس کے پاس دونوں جنسی عضو ہوں یا ایک واضح اور دوسرا غیر واضح ہو تو اس صورت میں والدین کو جنس کی تعیین کس طرح کرنی  چاہیے ؟ اور  ایک دفعہ جنس کی تعیین کرنے کے بعد دوسرے  والے جنسی عضو کو سرجری کے ذریعہ ہٹانا کیسا ہے؟

جواب

1۔ ایسا بچہ جس میں  پیدائشی طور پر  مرد و زن کے اعضاء مخصوصہ موجود ہوں، اس کی جنس کے تعیین کا طریقہ فقہاء کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ پیشاب مردانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مذکر قرار دیا جائے گا، اور اگر زنانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مؤنث قرار دیا جائے گا، اور اگر اس کا پیشاب دونوں عضو سے نکلتا ہو تو جس عضو سے پہلے پیشاب نکلتا ہو اس ہی کا اعتبار کرکے  جنس کی تعیین ہوگی، اور  اگر دونوں عضو سے پیشاب ایک ہی ساتھ نکلتا ہو تو اس صورت میں  جس عضو سے زیادہ پیشاب نکلتا ہو، اسی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین کی جائے گی، البتہ اگر دونوں عضو سے برابر پیشاب آتا ہو تو ایسی صورت میں وہ نہ مذکر قرار پائے گا اور نہ ہی مؤنث، اسے بالغ ہونے تک  خنثی مشکل  قرار دیا جائے گا، تاہم بلوغت کے وقت اگر اسے مردوں کی طرح احتلام ہو یا  وہ اپنے آلہ تناسل سے جماع پر قادر ہو تو اسے مرد قرار دیا جائے گا، اسی طرح سے اگر وہ جماع پر تو قادر نہ ہو لیکن اس کی ڈاڑھی نکل آئے،  یا اس کا سینہ مردوں کی طرح ابھار کے بغیر ہو تو ان تمام صورتوں میں وہ مرد  کے حکم میں ہوگا، البتہ اگر اس کو حیض آجائے، یا عورت کی طرح اس سے ہم بستری ممکن ہو، یا اس کا سینہ خواتین کے سینہ کی طرح ابھر جائیں، یا اس کے پستانوں میں دودھ آجائے، ان تمام صورتوں میں وہ خواتین کے حکم میں ہوگا، اور اگر مذکورہ بالا مرد و زن میں فرق کی علامتوں میں سے فرق کرنے والی علامت ظاہر نہ ہو تو اسے خنثی مشکل قرار دیا جائے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جنس کی تعیین کرلی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يَجِبُ أَنْ يُعْلَمَ بِأَنَّ الْخُنْثَى مَنْ يَكُونُ لَهُ مَخْرَجَانِ قَالَ الْبَقَّالِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَوْ لَا يَكُونَ لَهُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا وَيَخْرُجُ الْبَوْلُ مِنْ ثُقْبَةٍ وَيُعْتَبَرُ الْمَبَالُ فِي حَقِّهِ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ فَإِنْ كَانَ يَبُولُ مِنْ الذَّكَرِ فَهُوَ غُلَامٌ، وَإِنْ كَانَ يَبُولُ مِنْ الْفَرْجِ فَهُوَ أُنْثَى، وَإِنْ بَالِ مِنْهُمَا فَالْحُكْمُ لِلْأَسْبَقِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَإِنْ اسْتَوَيَا فِي السَّبَقِ فَهُوَ خُنْثَى مُشْكِلٌ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -؛ لِأَنَّ الشَّيْءَ لَا يَتَرَجَّحُ بِالْكَثْرَةِ مِنْ جِنْسِهِ، وَقَالَا: يُنْسَبُ إلَى أَكْثَرِهِمَا بَوْلًا وَإِنْ كَانَ يَخْرُجُ مِنْهُمَا عَلَى السَّوَاءِ فَهُوَ مُشْكِلٌ بِالِاتِّفَاقِ، كَذَا فِي الْكَافِي قَالُوا: وَإِنَّمَا يَتَحَقَّقُ هَذَا الْإِشْكَالُ قَبْلَ الْبُلُوغِ، فَأَمَّا بَعْدَ الْبُلُوغِ وَالْإِدْرَاكِ يَزُولُ الْإِشْكَالُ فَإِنْ بَلَغَ وَجَامَعَ بِذَكَرِهِ فَهُوَ رَجُلٌ، وَكَذَا إذَا لَمْ يُجَامِعْ بِذَكَرِهِ وَلَكِنْ خَرَجَتْ لِحْيَتُهُ فَهُوَ رَجُلٌ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ وَكَذَا إذَا احْتَلَمَ كَمَا يَحْتَلِمُ الرَّجُلُ أَوْ كَانَ لَهُ ثَدْيٌ مُسْتَوٍ، وَلَوْ ظَهَرَ لَهُ ثَدْيٌ كَثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ نَزَلَ لَهُ لَبَنٌ فِي ثَدْيَيْهِ أَوْ حَاضَ أَوْ حَبِلَ أَوْ أَمْكَنَ الْوُصُولُ إلَيْهِ مِنْ الْفَرْجِ فَهُوَ امْرَأَةٌ، وَإِنْ لَمْ تَظْهَرْ إحْدَى هَذِهِ الْعَلَامَاتِ فَهُوَ خُنْثَى مُشْكِلٌ، وَكَذَا إذَا تَعَارَضَتْ هَذِهِ الْمَعَالِمُ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَأَمَّا خُرُوجُ الْمَنِيِّ فَلَا اعْتِبَارَ لَهُ؛ لِأَنَّهُ قَدْ يَخْرُجُ مِنْ الْمَرْأَةِ كَمَا يَخْرُجُ مِنْ الرَّجُلِ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ قَالَ: وَلَيْسَ الْخُنْثَى يَكُونُ مُشْكِلًا بَعْدَ الْإِدْرَاكِ عَلَى حَالٍ مِنْ الْحَالَاتِ؛ لِأَنَّهُ إمَّا أَنْ يَحْبَلَ أَوْ يَحِيضَ أَوْ يَخْرُجَ لَهُ لِحْيَةٌ أَوْ يَكُونَ لَهُ ثَدْيَانِ كَثَدْيَيْ الْمَرْأَةِ، وَبِهَذَا يَتَبَيَّنُ حَالُهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ رَجُلٌ؛ لِأَنَّ عَدَمَ نَبَاتِ الثَّدْيَيْنِ كَمَا يَكُونُ لِلنِّسَاءِ دَلِيلٌ شَرْعِيٌّ عَلَى أَنَّهُ رَجُلٌ، كَذَا فِي الْمَبْسُوطِ لِشَمْسِ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيِّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -."

( كِتَابُ الْخُنْثَى، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِير الْخُنْثَى، ٦ / ٤٣٧ - ٤٣٨، ط: دار الفكر)

2۔ صورت مسئولہ میں جنس کی تعیین کے بعد  دوسری جنس کے عضو کا جسم میں موجود ہونا چونکہ عیب کا باعث ہے، لہذا بذریعہ آپریشن اس کے  ازالہ کی شرعا اجازت ہوگی، مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

آپریشن سے جنس تبدیل کرانے کے بعد میراث میں حصہ

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں