بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خنثی کی بدعا


سوال

1۔کیا خواجہ سراؤں (کھسروں) کی بددعا لگ جاتی ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ خواجہ سراؤں کا دل نہیں دکھانا چاہیے کیونکہ وہ بددعا دیتے ہیں اور ان کی بددعا لگ جاتی ہے، کیا یہ بات درست ہے ؟

2۔نیز یہ بھی بتادیں کہ یہ جو خواجہ سرا وغیرہ بھیگ مانگتے ہیں تو کیا ان کو بھیگ (نفلی صدقات ، زکوٰۃ اور فطرانہ وغیرہ)دینا جائز ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ جس طرح   دوسرے کے حق میں دعا قبول ہو کر اپنا اثر رکھتی ہے، اسی طرح   ظالم ، جابر، حق تلفی کرنے والے، ایذا رسانی کرنے والے شخص کے خلاف  مظلوم، مقہور،مغلوب، کم زور، تکلیف رسیدہ  کی بد دعا بھی  قبول ہوتی ہے،  اس لیے حدیث میں مظلوم کی بددعا سے بچنے  کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کی بددعا سن کر اس کی داد رسی کرتے ہیں۔

البتہ ہر بد دعا دینے والے کی ہر بددعا قبول ہو،  یہ ضروری نہیں ہے، مثلا ً کوئی شخص حق پر ہو اور دوسرا شخص اسے ناحق بد دعا دے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔لھذا صورت مسئولہ میں  خاص اس صنف سے متعلق بد دعا کی قبولیت کی کوئی ایسی صراحت نہیں ہے کہ جو بھی وہ بددعا دیں قبول ہو ، البتہ عمومی بدعا کا جو حکم اوپر ذکر کیا  وہی ان کے لئے بھی ہے۔

صحيح  بخاری میں ہے :

"‌عن ‌ابن ‌عباس ‌رضي ‌الله ‌عنهما: ‌أن ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌بعث ‌معاذا ‌إلى ‌اليمن، ‌فقال: (‌اتق ‌دعوة ‌المظلوم، ‌فإنها ‌ليس ‌بينها ‌وبين ‌الله ‌حجاب)."

(كتاب المظالم، باب: الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم، ج:2، ص:864، ط:دار ابن كثير)

2۔  جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ان  کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انہیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ مہذب طریقہ سے معذرت کرلی جائے، البتہ اگر کسی نے ان کو  بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا،البتہ  زکات اور صدقاتِ  واجبہ میں احتیاط کرنا چاہیے ، ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔مزدور طبقہ  جو ضرورت مند ہو، حتی الامکان  ان کی مدد کرنی چاہیے ،ان سے کچھ کام لےکر ان کی استحقاقی اجرت سے زیادہ بطور صدقہ خیرات دےدینا بہتر معلوم ہوتا ہے۔اس سے ان کی مدد بھی ہوجائے گی اور عزت نفس بھی مجروح نہ ہوگی،  مانگنے کی عادت بھی نہ پڑے گی۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ‌لا ‌تحل ‌الصدقة لغني، ولا لذي مرة سوي."

(کتاب الزکوٰۃ،باب من لا تحل لہ الصدقۃ،ج:2،ص:35،الرقم:652،ط:دارالغرب الإسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسيأتي في باب المصرف أنه لا يحل أن يسأل شيئا من له ‌قوت ‌يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم."

(کتاب الصلاۃ، باب العیدین،ج:2،ص:164، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں