بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھلم کھلا گناہ کرنے کی صورت میں توبہ کرنے کا طریقہ


سوال

اگر گناہ کھلم کھلا ہو جان بوجھ کر ،تو توبہ کا کیا حکم ہے؟ کیا توبہ اعلانیہ ہوگی؟ اور اگر کھلم کھلا گناہ بھول چوک سے یا غلطی سے ہو جاۓ تو پھر توبہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر گناہ کرنے سے مراد محض حدود اللہ کی خلاف ورزی اور  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، یعنی ایسا گناہ ہے جس کا براہِ راست کسی بندے کے حق سے تعلق نہیں ہے تواگر گناہ کرنے والا صدقِ دل سے آئندہ گناہ نہ کرنے کےعزمِ مصمّم کے ساتھ  تنہائی میں  لوگوں کو بتائے بغیر   توبہ واستغفار کرے تو  امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے، اگرچہ یہ گناہ لوگوں کے سامنے ہوا ہو، علانیۃً (کھلم کھلا) توبہ کرنا ضروری نہیں ہ۔ اور اگر گناہ کرنے سے مراد اللہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق، یا عزت وآبرو متاثر کرنا ہے تو پھر محض اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا کافی نہ ہوگا، بلکہ جس کا حق متاثر کیا ہے ان کے حقوق  بھی ادا کرنے ہوں گے، تاہم اس صورت میں بھی سب لوگوں کے سامنے اعلانیہ توبہ ضروری نہیں ہوگی۔

البتہ بعض صورتوں میں توبہ کی تکمیل کے لیے اعلانیہ رجوع یا وضاحت ضروری ہوسکتی ہے، اس کا تعلق بعض خاص صورتوں سے ہوگا، مثلاً دین کے کسی حکم کے بارے میں جان بوجھ کر غلط بات کی، یا مثلاً جھوٹی حدیث گڑھ دی تو اب صرف توبہ کافی نہیں ہے، بلکہ اعلانیہ اس کی وضاحت ضروری ہوگی کہ یہ حدیث یا شرعی حکم نہیں ہے۔

تفسير روح المعاني میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، وركنها الأعظم الندم.

وفي شرح المقاصد قالوا: إن كانت المعصية في خالص حق الله تعالى فقد يكفي الندم كما في ارتكاب الفرار من الزحف وترك الأمر بالمعروف، وقد تفتقر إلى أمر زائد كتسليم النفس للحد في الشرب وتسليم ما وجب في ترك الزكاة، ومثله في ترك الصلاة وإن تعلقت بحقوق العباد لزم مع الندم، والعزم إيصال حق العبد أو بدله إليه إن كان الذنب ظلما كما في الغصب والقتل العمد، ولزم إرشاده إن كان الذنب إضلالا له، والاعتذار إليه إن كان إيذاء كما في الغيبة إذا بلغته ولا يلزم تفصيل ما اغتابه به إلا إذا بلغه على وجه أفحش." 

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں