بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر تشدد کرتا ہو تو بیوی طلاق یا خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے / طلاق کے لیے گواہ بنانے کا حکم / عدت کے احکام


سوال

1۔ میری  بہن کی شادی کو 12 سال ہو گئے ہیں، میرے بہنوئی نے شادی کے 12 سال بعد دوسری شادی کرلی ہے اور اس وجہ سے گھریلو پریشانی اور ناچاقی ہونے لگی ہے، اور میری بہن جو کہ پہلی بیوی ہے اس پر تشدد ہونے لگا، اس وجہ سے اب میری بہن یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی، اس کا شرعی حکم بتادیاں کہ اگر میری بہن خلع یا طلاق لینا چاہے تو لے سکتی ہے؟

2۔ میری بہن اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہے، اس لیے طلاق نامہ پر ایک بار طلاق لکھوانا ہوگا یا تین بار؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور اگر شوہر طلاق نامہ پر دستخط کردے تو یہ تین بار طلاق ہوگی یا ایک بار؟ اور تین مہینے کے تین حیض بعد تین طلاقیں مکمل ہوں گی؟

3۔ اگر لڑکا طلاق نامہ پر دستخط کرتا ہے تو لڑکی کی طرف سے کتنے گواہان کی ضرورت ہوگی؟ اور طلاق نامہ پر لڑکے کے دستخط کے ساتھ گواہ کے سامنے زبان سے کہنا لازمی ہے یا صرف گواہ کے سامنے دستخط کردے تو طلاق ہوجائے گی؟

4۔ اگر لڑکا ایک طلاق دیتا ہے یا طلاق نامہ پر ایک بار لکھا ہوا ہے اور اس پر دستخط کرتا ہے تو تین حیض کے بعد طلاق ہوگی؟ تو  عدت کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ کہ آیا ایک طلاق کے بعد عدت شروع ہوگی یا تین طلاق کے بعد؟ یا تین حیض کے بعد مکمل طلاق ہوگی پھر عدت شروع ہوگی؟

5۔ عدت کے متعلق جو بھی شرعی حکم ہے اس سے ہمیں مطلع فرمائیں تاکہ عدت شرعی طریقے سے پوری کی جائے۔

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کا بہنوئی اس کی بہن پر بلا وجہِ شرعی تشدد کرتا ہے تو وہ اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں،لیکن یہ واضح رہے کہ  خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے جس میں فریقین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے،لہٰذا  سائل کی بہن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مہرکی معافی یا کسی اور عوض کی ادائیگی  کے بدلے اپنے شوہرسے خلع لے لے، اگر خلع کا عوض مہر کو مقرر کیا جائے تو سائل کی بہن نے اگر مہر وصول کرلیا ہے تو مہر واپس کرنا ہوگا اور اگر مہر وصول نہیں کیا تو شوہر کے اوپر جو مہر دینا لازم تھا، وہ معاف ہوجائے گا، اور خلع کے ذریعے سائل کی بہن پر ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوجائے گی، وہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

البتہ خلع کے عوض کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ اگر زیادتی شوہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے مہر کا عوض لینا مکروہِ تحریمی ہے۔

2۔ واضح رہے کہ جس طرح زبانی  طلاق واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح لکھنے سے یا  طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اور طلاق نامہ پر جتنی طلاقیں لکھی جائیں، اتنی واقع ہوں گی، یعنی اگر ایک طلاق لکھوائی جائے اور شوہر دستخط کردے تو ایک طلاق واقع ہوگی، اور اگر تین طلاق  لکھوائی جائے تو تین طلاقیں واقع ہوں گی، البتہ چوں کہ بیک وقت تین طلاق دینا گناہ ہے، اس لیے طلاق نامہ پر تین طلاق لکھوانےکے بجائے ایک طلاق بائنہ بھی آزادی کے لیے کافی ہے اور جس وقت طلاق نامہ پر شوہر دستخط کرے گا، اسی وقت طلاق واقع ہوجائے گی اور بیوی پر عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزارنا لازم ہوگی۔

3۔ طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ سند رہے، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی اگر  کوئی  طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق واقع ہونے کے لیے گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے، تاہم اگر گواہ بنائے جائیں تو شوہر کا ان کے سامنے دستخط کرنا کافی ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے۔

4۔ جس وقت شوہر طلاق دے، عورت کی عدت اسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے، چاہے ایک طلاق دی جائے یا تین، اور عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزرنے کے بعد شوہر اور مطلقہ کا تعلق ختم ہوجاتاہے، اور مطلقہ کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا صحیح ہوگا۔

5۔ الف۔  جس عورت کو شوہر نے طلاق دی ہو اس کی عدت مکمل تین ماہواریاں ہیں اگر حمل نہ ہو، اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت بہرصورت وضع حمل ہے۔

ب۔ عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور کسی کے لیے عدت گزارنے والی عورت کو نکاح کا واضح  پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے۔

ج۔ عدت کے دوران عورت کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

د۔ مطلقہ بائنہ  کے لیے عدت میں  زیب وزینت، بناؤسنگھار  کرنا، خوشبو لگانا، اور  نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز نہیں ہے، جب کہ مطلقہ رجعیہ کے لیے عدت کے دوران زینت اختیار کرنا مستحب ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌إذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية. إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع. وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ج: 1، ص: 488، ط: دار الفكر بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال) هذا حكم الخلع عند جماهير الأئمة من السلف والخلف."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 4، ص: 211، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وشرطه كالطلاق) وهو أهلية الزوج وكون المرأة محلا للطلاق منجزا، أو معلقا على الملك. وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض ‌بدون ‌القبول."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3، ص: 441، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت ‌طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(كتاب الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة، ج: 1، ص: 378، ط: دار الفكر بيروت)

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، و لئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية"

(سورۃ الطلاق، ج: 18، ص: 157، ط: دار الكتب المصرية)

ہدایہ میں ہے:

"(وإذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء) لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228] والفرقة إذا كانت بغير طلاق فهي في معنى الطلاق لأن العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح، وهذا يتحقق فيها."

(كتاب الطلاق، باب العدة،  ج: 2،  ص: 274، ط: دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضاً:

"(وابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها) لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب."

(كتاب الطلاق، باب العدة،  ج: 2،  ص: 276، ط: دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضاً:

"قال (وعلى المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد) أما المتوفى عنها زوجها فلقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاثة أيام إلا على زوجها أربعة أشهر وعشرا» وأما المبتوتة فمذهبنا... (ولا ينبغي أن تخطب المعتدة ولا بأس بالتعريض في الخطبة) لقوله تعالى {ولا جناح عليكم فيما عرضتم به من خطبة النساء} [البقرة: 235] إلى أن قال {ولكن لا تواعدوهن سرا إلا أن تقولوا قولا معروفا} [البقرة: 235] وقال - عليه الصلاة والسلام - «السر النكاح» وقال ابن عباس - رضي الله عنهما -: التعريض أن يقول: إني أريد أن أتزوج. وعن سعيد بن جبير - رضي الله عنه - في القول المعروف: إني فيك لراغب وإني أريد أن نجتمع... (ولا يجوز للمطلقة الرجعية والمبتوتة الخروج من بيتها ليلا ولا نهارا، والمتوفى عنها زوجها تخرج نهارا وبعض الليل ولا تبيت في غير منزلها) أما المطلقة فلقوله تعالى {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة} [الطلاق: 1] قيل الفاحشة نفس الخروج، وقيل الزنا، ويخرجن لإقامة الحد، وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش، وقد يمتد إلى أن يهجم الليل، ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها."

(كتاب الطلاق، ‌‌فصل وعلى المبتونة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد، ج: 2، ص: 278، ط: دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضاً:

"(والمطلقة الرجعية ‌تتشوف وتتزين) لأنها حلال للزوج إذ النكاح قائم بينهما، ثم الرجعة مستحبة والتزين حامل له عليها فيكون مشروعا."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 2، ص: 257، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں