بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع قبل الوطی میں پیسے لینا


سوال

خلع قبل الوطی  میں پیسے لینا شوہر  کے لئے حلال ہے یا مکروہ؟

جواب

خلع  میں جو بھی عوض طے کرلیا جائے اس کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر شوہر کی جانب سے ظلم/ ہٹ دھرمی پائی جارہی ہو تو اس صورت میں  شوہر کے لیے عوض کے طور پر کچھ لینا  دیانتًا حلال نہیں  ہے   اور اگر لے لیتا ہے تو حکمًا یہ جائز ہے  اور یہ مال لازم ہوجاتا ہے۔ اور اگر عورت کی طرف سے نافرمانی ہے اور عورت خلع کا مطالبہ کررہی ہے تو اس صورت میں  جتنا  مہر عورت کو دیا گیا ہے اس سے زائد  وصول کرنا مکروہ ہے، اگرچہ قضاءً زیادہ بھی لے سکتا ہے، نیز خلع  میں مدخول بہا وغیر مدخول بہا عوض طے کرنے کے حق میں  برابر ہیں۔ البتہ اگر  غیر مدخول بہا  عورت کی جانب سے مہر پر خلع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں اگر مہر پر قبضہ ہوا ہے تو عورت مکمل مہر واپس کرے گی اور اگر مہر پر قبضہ نہیں ہوا تو عورت کچھ بھی مرد کو بدل خلع کے طور پر نہیں  دے گی۔

ھندیۃ(488/1):

"إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَ هَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَاتَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.

وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ، كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ."

 المحیط البرھانی میں ہے (341/4):

"وإن لم يكن الزوج دخل بها فخالعها والمهر مقبوض، فالقياس أن يرجع الزوج عليها بألف وخمسمائة، ألف بدل الخلع وخمسمائة نصف المهر بالطلاق قبل الدخول، وفي الاستحسان يرجع عليها بألف درهم لا غير خمس مائة بدل الخلع وخمس مائة بالطلاق قبل الدخول، وإن كان المهر غير مقبوض فالقياس أن يرجع الزوج عليها بخمسمائة. وفي الاستحسان لا يرجع عليها بشيء ويبرأ عن جميع المهر، وبيان وجه الاستحسان أنّه أضاف الخلع إلى مهرها ومهرها ما يجب لها بالنكاح والواجب لها بالنكاح متى ورد الطلاق قبل الدخول نصف المهر، وذلك خمس مائة، فكأنّه خالعها على ذمّة الزوج خمس مائة بعد الطلاق قبل الدخول فالتقيا قصاصاً، وإن كان مقبوضاً يرجع الزوج عليها بألف لا غير خمس مائة بدل الخلع، وخمس مائة بالطلاق قبل الدخول، كذا ها هنا هذا إذا خالعها على جميع مهرها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں