بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع میں مہر کا حکم


سوال

اگر بیوی خلع  لیتی ہے تو مؤجل حق مہر کی حق دار ہوگی یا نہیں ؟ اور اگر مؤجل مہر کس صورت میں خلع کے وقت بھی خاوند ادا کرنے کا حقدار ہوسکتاہے ؟

جواب

خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہے۔ اگر میاں بیوی کی رضامندی سے خلع ہوا تو اس میں جو عوض طے ہو  وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا ذمے میں لازم ہوگا، اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو  اور شوہر نے اب تک مہر ادا نہ کیا ہو تو شوہر پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا  اور  اگر شوہر نے مہر ادا کر دیا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، ورنہ جس چیز کے عوض خلع  کیا گیا ہو  اس کی ادائیگی بیوی کے ذمے لازم  ہو گی۔

اسی طرح شوہر اگر خلع قبول کرلے، اور اس کے باوجود مہر ادا کردے یا دیا ہوا مہر واپس نہ لے تو یہ اس کا اختیار ہے، بغیر عوض لیے بھی خلع ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان. "

( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ /٤٨٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں