بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع لینے والی عورت کے عدت گزارنے کا حکم


سوال

کیا خلع لینے کی صورت میں عورت پر عدت واجب ہوتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے ، جس کے درست ہونے کے لیے جانبین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے ، اگر فریقین میں سے کوئی فریق خلع پر راضی نہ ہو توایسا خلع شرعاً معبتر نہیں ، بلکہ نکاح بدستور برقرار رہتا ہے، لہذا اگر بیوی نے شوہر کی رضامندی سے خلع لی ہو تو اسے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے ، اس کی عدت بھی دیگر مطلقہ عورتوں کی طرح ہوتی ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے:

1. اگر رخصتی یا خلوتِ صحیحہ سے پہلے خلع واقع ہوا ہو تو عدت گزارنا لازم نہیں۔

2. اگر رخصتی یا خلوتِ صحیحہ کے بعد خلع ہوا ہو تو اس کی کئی صورتیں ہیں:

(الف) عورت امید سے ہو تو عورت وضعِ حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔

(ب) عورت امید سے نہ ہو اور اسے ایامِ ماہواری آتی ہو تو عدت تین ماہواریاں ہے۔

(ج) اگر ماہواری نہیں آتی تو عدت تین ماہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ."(سورۃ البقرۃ: 228)

ترجمہ:’’ اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح) سے روکے رکھیں تین حیض تک۔‘‘(از : بیان القرآن)

"وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ."(سورۃ الطلاق: 4)

ترجمہ:’’ تمہاری ( مطلقہ) بیبیوں میں جو عورتیں بوجہ زیادہ عمر کےحیض آنے سے نا امید ہوچکی ہوں اگر تم کو ان کی عدت کے تعین میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور اسی طر ح جن عورتوں (اب تک بوجہ کم عمری کے ) حیض نہیں آیا،اور حاملہ عورتوں کی عدت اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے، اور جو شخص اللہ سےڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کردے گا۔‘‘(از : بیان القرآن)

"بدائع الصنائعفي ترتيب الشرائع" میں ہے :

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، فصل فی شرائط رکن الطلاق،ج:3، ص:145، ط:سعید)

"فتح القدير للكمال ابن الهمام" میں ہے:

"أن ‌الطلاق ‌قبل ‌الدخول لا تجب فيه العدة، قال الله تعالى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا}".

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ج:4، ص:308، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)".

(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب في عدة الموت، ج:3، ص:511، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"إذا ‌طلق ‌الرجل ‌امرأته ‌طلاقا ‌بائنا ‌أو ‌رجعيا ‌أو ‌ثلاثا ‌أو ‌وقعت ‌الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج".

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:526، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر) . بأن بلغت سن الإياس (أو بلغت بالسن) وخرج بقوله (ولم تحض) .... (ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره."

(کتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ج:3، ص:507، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں