میرے میاں نے تقریباً ایک سال پہلے مجھ سے یہ کہا تھا کہ" اگر تم خالہ کے گھر گئی، تو میری طرف سے فارغ ہو"، مجھے ان الفاظ کی گہرائی کا علم نہیں تھا ،نہ ہی یہ معلوم تھا کہ ایسے الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے ۔
میں خالہ کے گھر چلی گئی ،جب کہ یہ بات ذہن میں نہیں تھی، اسی دن جب میں واپس آئی تو میرے میاں نے مجھ سے کہا کہ میں نے تم سے یہ الفاظ کہے تھے، اور میری ایک طلاق کی نیت تھی، اب کسی سے پتہ کرو کہ اس کا کیا حل ہے؟ میں نے مفتیانِ دین سے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ ہمارے بیچ طلاقِ بائن کی صورت میں طلاق ہو چکی ہے، یعنی اب اگر نباہ کرنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہو گا، اسی طرح نئے مہر اور نئے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو صورت میں نے بیان کی ہے، اس طلاق کا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح تحریری تھا، بلکہ یہ نکاح زبانی کلامی تھا، اب اگر میں اپنے میاں سے علیحدگی اختیار کروں تو طلاق کا طریقۂ کار کیا ہو گا؟
نیز میرے حق مہر میں ایک لاکھ روپیہ اور سوا دو تولے سونا لکھا گیاتھا، اور ادائیگی طلاق کی صورت میں ہوگی، سوال یہ ہے کہ اگر میاں سے خلع لے لی جائے تو کیا یہ مہر ادا ہوگا یا منسوخ ہو جائے گا؟
1۔ سائلہ کے بیان کے مطابق سائلہ اور ان کے شوہر کے درمیان پہلی طلاق بائن کے بعد ،دوبارہ نئے سرے سے نئے گواہوں کی موجودگی میں نکاح منعقد ہوچکا تھا، اور اب تک نکاح برقرار ہے، تو ایسی صورت میں اگر سائلہ کسی شرعی عذر کی بناء پر شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہے،تو اس کی دو صورتیں ہیں :
1:شوہر خود سائلہ کو طلاق دے دے۔
2:سائلہ اپنے شوہر سے خلع لےلے
2۔خلع سے متعلق یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے،اور آپسی رضامندی سے جس چیز پر خلع واقع ہو (مثلاً مہر پر ) ،تو اگر شوہر نے اب تک مہر ادا نہ کیا ہو، تو آئندہ اس کے ذمہ مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."
(کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حکمه، جلد:1، ص:488، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101763
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن